آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تعلق فرمالیا کہ انہیں ایک اجتہادی فرعی مسئلہ بلکہ اس کے ایک جزئیہ میں دیانۃً مولانا سے اختلاف تھا ،ایسے واقعات کی کیا توجیہ کی جائے، اگر میری سمجھ کا پھیر ہو تو ازراہ شفقت وکرم آپ مجھے تفصیل سے سمجھادیں ‘‘۔ حضرت مولانا عبدالماجد صاحب نے اس مکتوب کو حضرت تھانویؒ کی خدمت میں پیش کرنے کے ساتھ یہ تحریر فرمایا کہ: ’’تفصیلی جواب تو ان صاحب کو میں خود انشاء اللہ دے دوں گا ،میری امداد صرف اجمالی نکات سے فرمادی جائے‘‘ ۔حضرت اقدس تھانویؒ کا جواب ایسے سوالات کے جوابات دینے کا میرامزاج نہیں حضرت تھانویؒ نے تحریرفرمایا: اصل میں تو میرامذاق ایسے سوالات کے جوابات دینے کا نہیں کیونکہ اپنی ذات کے متعلق جواب دینا مرادف ہے کہ ہم اس نقص سے بری ہیں سوایسا دعوی کرنا خودفَلاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ کے خلاف ہے ،اس لئے ان کو اتنا ہی جواب کافی ہے ، مگر آپ پرکشف واقعہ کی غرض سے اتنا جواب کافی اور دے سکتاہوں کہ گول بات کا جواب ہو نہیں سکتا ،نہ مجھ کو کوئی واقعہ ایسا یاد ہے اگر ان سے اس صاحب علم وفضل کانام اور اس اجتہادی فرعی مسئلہ کی تعیین اور نوعیتِ اختلاف کی تحقیق فرمالی جائے اور مجھ کو یادبھی آجاوے توبے تکلف عرض کردوں گا خواہ ان کی غلطی ہو خواہ میری غلطی ہو۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ حکیم الامت نقوش وتاثرات ص۳۵۴