آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مکالمہ نمبر۲ کانپور کی عدالت میں جج سے مکالمہ ایک استفتے کے جواب کے سلسلہ میں فرمایا کہ جیسا یہ استفتاء آیا ہے اسی قسم کا ایک معاملہ نکاح وطلاق کا کانپور میں کئی سال سے عدالت میں چل رہا تھا کسی حاکم سے وہ طے نہیں ہواوہ معاملہ ایک جنٹ انگریز کے یہاں آگیا اس نے کہا کہ اتنے عرصہ سے یہ معاملہ عدالت میں ہے اور آج تک فیصل نہیں ہوامناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے علماء سے اس مسئلہ کا شرعی فیصلہ کرالو اور اس کی صورت یہ ہے کہ فتویٰ حاصل کرلو،اس کے مطابق حکم نافذ کردیا جائے گا،اس پر دونوں فریق رضامندہوگئے چنانچہ علمائے شہر کے دستخطوں سے فتویٰ لکھا گیااب عدالت میں فریقین کو علماء کے نام بتلا کر ان کی رضامندی کسی خاص عالم پر پوچھی گئی ، اب کسی پرایک فریق رضامند ہواتو دوسرا نہیں ہوا کسی پر دوسرارضامند ہواپہلا نہیں ہوا، میں بھی اس وقت بسلسلہ ملازمت مدرسہ جامع العلوم کانپور میں قیام کئے ہوئے تھا میرے بھی دستخط اس فتوے پر تھے،عمر میری اس وقت غالباً تقریباً اکیس یا بائیس سال کی ہوگی ، طلبہ بھی میری کم عمری کی وجہ سے مجھ سے سبق پڑھتے ہوئے جھجکتے تھے، ان ناموں کے ساتھ میرا بھی نام لیاگیا، میرے نام پر دونوں فریق رضامند اور متفق ہوگئے ،حاکم نے ضابطہ کے اندر میرے نام سمّن جاری کردیا ، میں نے بہت چاہا کہ کسی طرح یہ بلاسرے سے ٹلے مگرسرآئی ہی پڑی،تاریخ مقرر پر عدالت میں گیا، میں کسی واقعہ کا گواہ نہ تھا مسائل کی تحقیق مطلوب تھی ،مجھ کو عدالت کے احاطہ میں دیکھ کر تمام وکلاء اور بیرسٹر جمع ہوگئے اور دریافت کیا کہ آپ کہاں ؟مقدمہ کے