آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس سے صاف واضح ہے کہ یہ ترجیح کشفی نہیں ہے باقی یہ بات کہ ترجیح اعلیٰ حضرت کی صحیح نہیں اس کو میں نہیں لکھتا اگر چہ یہ اصل ان کی صحیح ہے مگر اندراج اس جزئیہ کا اس اصل میں صحیح نہیں ہے آپ تامل کریں تو واضح ہوجائے گا۔ اوراس مسئلہ کو مختلف فیہا و مجتہد فیہا سمجھنا تم سے تعجب ہے کیونکہ وہ مسئلہ مختلف فیہا بظاہر دونوں طرف صواب ہوتا ہے کہ مجتہد مطلق یا مقید یا علماء راسخین ملحق بہم میں مختلف فیہ ہوا اور عوام علماء کا اختلاف مسئلہ کو مجتہد فیہ نہیں بتاتا بلکہ اس میں ایک ہی جانب حق ہوتی ہے کہ جو موافق قانون شریعت کے ہوا اور دوسری رائے باطل ہوتی ہے فقط۔ اور یہ جو کچھ بندہ نے لکھا ہے اگر میں بھی یہ کہنے لگوں کہ میں نے بھی کشفاً اس کو معلوم کرلیا ہے تو بجا ہے مگر میرا منھ اس کلمہ کے کہنے کا نہیں ہے اور چونکہ آپ کو بحسن عقیدہ اس کے خلاف شرح صدر ہوگیا ہے تو امید ہے کہ کسی کا لکھنا یا کہنا آپ کو مفید نہ ہوگا البتہ اس میں شک نہیں کہ ہم نے اہل مولود میں سے آج تک کسی کو متبع سنت نہیں دیکھا۔ فقط والسلام۔ مورخہ ۱۲؍ محرم ۱۳۱۵ھحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کا مکتوب از احقر خلق محمد اشرف علی عفی عنہ بخدمت سراپا برکت حضرت مولانا مقتدا ناسیدنا الحافظ الحاج المولوی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم پس از تسلیمات مقرون بالاٰف التکریم واصناف التعظیم معروض آنکہ والا نامہ موجب اعزاز و افتخار ہوا اپنی کج فہمی پر حضور کے اشفاق کو کہ برابر تفہیم فرماتے ہیں دیکھ کر نہایت شرماتا ہوں اور شرم سے دوبارہ عرض کرنے کی ہمت نہیں ہوتی مگر حضور کی اجازت پر اس سے پہلے عریضہ میں اپنے شبہات کو پیش کیا تھا لیکن اس والانامہ کا یہ مضمون (اور چونکہ آپ کو بحسن عقیدت اس کے خلاف شرح صدر ہوگیا ہے تو امید