آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
معلوم ہوا کہ قلت فہم یا سوء حفظ سے کسی مقدمہ کا مقدم دوسرے کی تالی سے جوڑ دیا، وبالعکس اس لیے گڑبڑ ہوگئی اور جب خود واقعہ پیش آئے گا تو اس کے پوچھنے پر صرف واقعہ نظر میں ہوگا اس میں خلط نہیں ہوسکتا۔۱؎مسئلہ بتلانے اور فتویٰ لکھنے کی اجرت سچا مسئلہ بتلاکر بھی رشوت لینا جائز نہیں چہ جائے کہ دین میں تحریف کرکے ، ہاں کتابت کی اجرت لینا جیسے فرائض لکھنے میں یہ جائز ہے مگر اس کے اثر پر بھی اگر غور کیجئے تو یہ بھی برائی سے خالی نہیں ، وہ اثر یہ ہے کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ لوگ فرمائش کرتے ہیں کہ مولانا فلاں وارث کا نام نہ لکھئے گا، ایسی فرمائش اس لیے کرتے ہیں کہ کچھ دیتے ہیں ورنہ کیوں ہمت ہو۔۲؎ایک اہم ہدایت فرمایا کہ جب میں تصنیف کا کام کرتا تھا تو عادت یہ تھی ہر وقت کا غذ پنسل میرے ساتھ رہتے تھے چلتے پھر تے ، اٹھتے بیٹھتے کوئی مضمون یاد آگیا تو فوراً لکھ لیتا تھا آدھی رات کو کوئی چیز یاد آتی تھی تو لکھ کر سوتا تھا کیونکہ بعض اوقات مضمون ذہن سے غائب ہوجاتا ہے پھر سوچنے سے بھی نہیں آتا۔۳؎دوسروں کے فتووں پر دستخط کرنے کی بابت ضروری ہدایت فرمایا: جب تک خود تحقیق نہ کر لوں جی نہیں چاہتا کہ کسی کے کہنے سے فتویٰ پر دستخط کردوں ، جواب شرح صدر ہوجانے کے بعد دینا چاہئے۔ اگر جزئیہ نہ ملے تو یہ بھی ضرور لکھ دیجئے کہ جواب قواعد کلیہ کی بنیاد پر دیا گیا ہے جزئیہ نہیں ملا اور علماء سے بھی دریافت کرلو تاکہ اپنے اوپر بوجھ نہ رہے۔ ۴؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۶؍۳۷ ،قسط: ۲۔ ۲؎ التبلیغ وعظ احکام المال ص۶۱۔۳؎ مجالس حکیم الامت ص۲۲۸۔ ۴؎ کلمہ الحق ص۵۹۔