آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہونے کے ذکر میں یہ لفظ لکھا گیا ہے ’’ضروری سمجھ کر کرنا‘‘ اس سے شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید غیر ضروری سمجھ کرکرنا جائز ہو، سویہ قید واقعی تھی احترازی نہ تھی، حکم یہ ہے کہ خواہ کسی طرح سے کرے بدعت ہے ۔ مقام چہارم: تعلیم الدین میں قبروں پر چراغ جلانے کے بارہ میں یہ لفظ لکھا گیا ہے ’’کثرت سے چراغ جلانا‘‘ اس میں بھی مثل مقام سوم کے سمجھنا چاہئے حکم یہ ہے کہ ایک چراغ رکھنا بھی بدعت ہے ۔۱؎حضرت تھانویؒ کی اپنی تصنیفات وتحریرات سے متعلق اطلاع اور دوضابطے حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں : تالیفات کے بعض مقامات میں مجھ سے اختصارموہم یازیادت موہمہ یا غفلت سے کچھ لغزشیں بھی ہوئی ہیں جو اس وقت ذہن میں حاضرہیں ان کی اطلاع جزئی طور پر دیتاہوں اور جو اس وقت ذہن میں حاضرنہیں ان کے لئے دوقاعدے عرض کرتاہوں ۔ ایک یہ کہ میری کسی ایسی تصنیف میں جو اس محل لغزش سے متاخر ہو اس کی اصلاح کردی گئی ہو، اور متاخرہونا تاریح کے ملانے سے جو کہ ہر تصنیف کے آخر میں التزاماً لکھی گئی ہے معلوم ہوسکتا ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم کرلینا چاہئے کہ میری تالیفات میں جومضمون متعارض ہو اس میں اخیر کا قول میرا سمجھاجائے ۔ دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ ایسے مواقع مشتبہ کو دوسرے علماء محققین سے تحقیق کرلیاجائے اور ان کے قول کو میرے قول پر ترجیح دی جائے ۔ ------------------------------ ۱؎ اشرف السوانح ص۱۱۲ج۳