آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بات ہے) جس کو کام کرنا ہوتا ہے وہ تو ذراساحکم پاکر اس کی تعمیل میں لگ جاتا ہے بلکہ وہ ڈراکرتا ہے کہ اگر کچھ پوچھوں گا تو کوئی دشواری کام میں نہ پیداہوجائے اور پھر مجھ سے ہونہ سکے اور جس کو کام کرنا نہیں ہوتا وہ یہی تقریریں چھانٹا کرتا ہے ،غرض مسائل میں خواہ مخواہ خوض کرنا اچھا نہیں یہ عمل سے لاپروائی کی دلیل ہے ۔علماء سے ایک شکایت دقیق غیر ضروری سوالوں کاجواب دینے کا نقصان اور اس میں تقصیر(کوتاہی) صرف سائلین ہی کی نہیں بلکہ گروہ علماء (اور مفتیوں )کی بھی ہے جو ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں ، وہ کوتاہی یہ ہے کہ یہ حضرات ہر سوال کے جواب کے لئے تیارہوجاتے ہیں ، پوچھنے والوں کو تودل لگی ہوتی ہے اور ان کا وقت ضائع ہوتا ہے ،یہ تو وقتی مفاسد ہیں ا ور جو خراب نتائج بعد میں پیداہوتے ہیں ان کا سلسلہ دور تک پہنچتا ہے اول تو سننے والے اکثر صحیح نہیں سمجھتے نیز روایت کرنے میں احتیاط بالکل نہیں اس میں عوام اور جہلاء کی تو کیا شکایت کی جائے پڑھے لکھے بھی احتیاط نہیں کرتے کہاجائے کچھ اور دوسری جگہ بات ہوجائے کچھ سے کچھ ،کچھ تو سمجھنے میں غلطی کی اور کچھ روایت میں بے احتیاطی کی نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے مفتی تک وہ مضمون کچھ کا کچھ ہو کر پہنچ گیا پھر وہ دوسرے سننے والے جن کو یہ مضمون پہنچایا گیا وہ بھی محتاط نہیں ، انہوں نے سوء ظن سے مفتی اول پر کوئی فتوی لگادیا اور دل میں عداوت بٹھالی پھر وہ فتوی لوٹ کر وہاں بھی نقل کیاگیا جہاں سے بات چلی تھی اور درمیان میں وہ بھی کچھ سے کچھ ہوگیا،اب چونکہ ان کے فتوے کی مخالفت کی گئی تھی اس واسطے انہوں نے ان کے فتوے سے بھی تیز کوئی فتوی لگادیایہ ہے