آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ناجائز ہونے میں اختلاف ہو اس کو ترک کردیں کیونکہ اس کے ترک کردینے میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس فعل کا ثواب نہ ملے گا تو خیر اور بہت سی باتوں سے ثواب حاصل ہوسکتا ہے لیکن اس کام کو اگر کیا تو کرنے میں عذاب ہوگا، پس اس احتیاط میں گو کچھ ثواب میں کمی ہو جائے مگر عذاب سے تو بچ جائے گا۔۱؎مفتی کے فتوے پر بغیر دلیل معلوم کئے عمل کرنا جائز ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتویٰ دیدے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والوں کو ہوگا (ابوداؤد) فائدہ: دیکھئے اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتویٰ پر بدوں معرفتِ دلیل کے عمل جائز نہ ہوتا جو حاصل ہے تقلید کا توگنہگار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص؟ بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتلانے کا گناہ ہوتا اسی طرح سائل کو دلیل تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا۔۲؎علماء کے اختلاف کے وقت عوام کے لئے دستورالعمل سلامتی اسی میں ہے کہ جس کام میں کھٹک ہو اور جس میں علماء کا اختلاف ہو، اس کو ترک کردو، جب کہ جواز وعدم جواز ہی میں اختلاف ہو اور اگر فرض وحرام میں اختلاف ہو، تو وہاں اس شخص کا اتباع کرو جس پر زیادہ اعتقاد ہو جیسے فاتحہ خلف الامام کہ اس میں صوفیہ حنفیہ اپنے امام کے قول کو نہیں چھوڑتے کیونکہ گو امام شافعیؒ قراء ت خلف الامام کوفرض کہتے ہیں مگر امام ابوحنیفہؒ مکروہ تحریمی کہتے ہیں ۔ باقی جن مسائل میں جواز وعدم جواز کا فتوی ہو، ان میں صوفیاء کا بھی یہی عمل ہے کہ وہ اس فعل کو ترک کردیتے ہیں ، اسی واسطے کہا جاتا ہے الصوفی لامذہب لہ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ۱۰؍۱۵۰-۱۵۱۔ ۲؎ ۵؎ الاقتصادص۱۱