آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بعض اوقات تو سوالات و شبہات کے جواب میں اسی پر قناعت کرلیتا ہوں کہ سائل سے پوچھتا ہوں کہ یہ مسئلہ قطعی ہے یا ظنی ؟ ظاہر بات ہے کہ قطعی ہوتا تو محل اجتہادنہ ہوتا، وہ کہتا ہے کہ ظنی ہے، تو میں کہہ دیتا ہوں تو پھر ظنی ہونے کا تقاضا ہی یہی ہے کہ جانب مخالف کا شبہ اس میں رہتا ہے، اگر تمہیں شبہ ہے تو ہوا کرے، اس سے تو مسئلہ کی ظنیت کی تاکید و تقویت ہوتی ہے، ایسے شبہ سے کچھ حرج نہیں ہے۔۱؎ فرمایا : جب میں کانپور میں حدیث پڑھاتا تھا تو میرے دل میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی ترجیح قائم ہوگئی چنانچہ اس پر عمل بھی شروع کردیا ، مگر حضرت گنگوہی کو لکھ کر بھیج دیااس کے جواب میں حضرت نے مجھے کچھ نہیں فرمایا، مگر چند ہی روز گذرے تھے کہ پھر خو دبخود دل میں ترک فاتحہ خلف الامام کی ترجیح ہوگئی اور اس کے مطابق عمل کرنے لگا،اس کی بھی اطلاع حضرت کو کردی، حضرت نے کچھ نہیں فرمایا حضرت کو یہ معلوم تھا کہ یہ جو کچھ کرتے ہیں نیک نیتی سے کرتے ہیں ۔۲؎اختلافی مسائل میں توسع کے حدود فرمایا کہ دیانات میں تو نہیں لیکن معاملات میں جن میں ابتلاء عام ہوتا ہے دوسرے امام کے قول پر بھی اگر جواز کی گنجائش ہوتی ہے تو اس پر فتویٰ دفع ِحرج کے لیے دے دیتا ہوں اگر چہ ابو حنیفہؒ کے قول کے خلاف ہو اورا گرچہ مجھے اس گنجائش پر پہلے سے اطمینان تھا لیکن میں نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے اس کے متعلق اجازت لے لی، میں نے دریافت کیا تھاکہ معاملات میں محل ضرورت میں دوسرے امام کے قول پر فتویٰ دینا جائز ہے ؟ فرمایا کہ جائز ہے۔۳؎ اور یہ توسع معاملات میں کیا گیا دیانات میں نہیں (کیونکہ اس میں کچھ اضطرار نہیں ) اسی لیے جمعہ فی القریٰ میں محض ابتلاء عوام کے سبب ایسا توسع نہیں کیا۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص ۷۲ ۲؎ مجالس حکیم الامت ص ۳۱۷۰؎ دعوات عبدیت ص۱۲۴ج۹ ۴؎ کلمۃ الحق ص۷۰