آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
معاملہ کریں فرمایا: میں اس میں کیا کروں گا، جو شریعت کاحکم ہے وہی کروں گا۔ یہاں ایک طرف تو ہے ہذا تمثال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ایک طرف ہے ہذا حکم رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لو کون مقدم ہے اور ایک اس سے بھی اچھا فیصلہ ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اگر یہ پیش کی جاتی تو حضور کیا معاملہ فرماتے، ظاہر ہے کہ اتنا بھی نہ فرماتے جتنا شاہ عبدالعزیز صاحب نے فرمایا، بلکہ مولانا شہیدؒ ہی جیسا فتویٰ (دیتے) اور عمل فرماتے،پھر فرمایا کہ حضرت مولانا شہید ؒ اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کی تجویزوں میں فرق یہ ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کا نفع عام ہے اور حضرت شہید کا نفع تام ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نفع عام سے نفع تام افضل ہے گو نفع عام سہل (زیادہ آسان) ہے، دونوں حضرات کے مسلک کا یہ خلاصہ ہے جو میں سمجھتا ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ بزرگ بھی باوجود مقصد میں متحد ہونے کے مختلف الاحوال اور مختلف الطبائع ہوتے ہیں اس لیے نفس احکام میں تو نہیں مگر رائے اور طریقہ کار میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ ۱؎حضور ا اور صحابہ کرام کی تصاویر سے متعلق مزید تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر صحابہ کی تصاویر میں نے ایک دفعہ کھتولی میں دیکھی تھی اور وہ حیدرآباد سے آئی ہوئی تھیں ، احترام کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا قابل احترام نہیں ، اولاً تو واقع کے مطابق ہونا مشکل ہے اور اگر ہو بھی تو مفسدہ زیادہ ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں سے حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہماالسلام کے ساتھ دوسری تصویروں کی طرح معاملہ فرمایا تھا ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ طبیعت احترام کو چاہتی ہے مگر حکم کے سامنے طبیعت کو دخل نہ دینا چاہئے، طبعی تقاضا پر حکم کا غلبہ ہونا چاہئے حکم کے ماننے ہی میں احترام ہے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ۷؍۳۱۰ و ۳۱۱۔ ۲؎ الافاضات الیومیہ