آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کسی کے مقدمہ وقضیہ میں نہ پڑناچاہئے اورنہ ہردعوت قبول کرنا چاہئے (اس کی)ایک فرع یہ بھی ہے کہ اہل علم کو کبھی کسی کا فیصلہ نہ لینا چاہئے، کیونکہ اس سے بھی بدگمانی ہوتی ہے جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے وہ ان سے بدگمان ہوجاتا ہے اور مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے ،کیونکہ ابتدا میں بعض مواقع میں مجھ سے ایسی غلطی ہوگئی ہے کہ میں نے فیصلہ لے لیا ،مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوا ، پھر مجھے تجربہ ہوگیا۔ چنانچہ پہلے پہلے جب میں وطن گیاتو لوگ اپنے فیصلے لاتے تھے، ایک مکان کا فیصلہ تھا میں نے محنت کرکے جزئیات فقہیہ تلاش کیں اور اس کے موافق فیصلہ لکھا، مگر جس کے خلاف تھا اس نے اس کو نہیں مانا ،آخروہ معاملہ سرکار میں لے گئے، میرے فضول کئی دن اس میں برباد ہوئے ۔ ایک اور فیصلہ تھا کہ اس میں ایک فریق تو ایک عورت تھی اور دوسرا فریق ایک مرد تھا،اس میں بھی ایسا ہی ہوا ،دوہی مرتبہ میں مجھے تجربہ ہوگیا کہ اہل علم کو ہرگزفیصلے میں نہ پڑنا چاہئے، اس وقت سے میں نے یہ تجویز کرلی ہے کہ جو میرے پاس فیصلہ لاتا ہے اس سے کہہ دیتاہوں کہ فیصلہ تو عمائد(یعنی علاقہ کے ذمہ دار حضرات جن کو وجاہت واقتدار حاصل ہو مثلاً چودھری، پردھان وغیرہ) کے پاس لے جاؤ، انہیں سے فیصلہ کراؤ، لیکن اگر شاید وہ مسائل اور احکام ِشریعت سے واقف نہ ہو ں تو اس وقت یہ ہونا چاہئے کہ فریقین متفق ہو کر ایک استفتاء لکھیں جس پر دونوں کے دستخط ہوں اور اگر استفتاء کے مضمون میں فریقین کا اتفاق نہ ہو تواس میں بھی عمائد سے رجوع کریں تاکہ وہ تنقیح کرکے استفتاء کے مضمون کو درست کریں اور جب مضمون منقح ہوجائے تو اس پر دونو ں فریق دستخط کریں اور میرے پاس لائیں تومیں جواب لکھ دوں گا تاکہ یہ نہ ہو کہ ایک نے کچھ اپنے موافق لکھ کر فتویٰ حاصل کرلیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوکہ پھر دونوں کو عدالت میں جاکر کھڑاہونا پڑے اور وہ