آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مسئلہ کی صورت پوری پوری بیان کردو ایک ادب یہ معلوم ہوا کہ طبیب کے سامنے جو واقعہ ہے اور اصل مرض وہ (پورا پورا) بیان کردیا کرتے ہیں یہ نہیں کرتے کہ حالت تو کچھ ہے اور بیان کچھ، اسی طرح دینی مسائل بھی جس سے پوچھو تو جوواقعہ ہو بے کم وکاست(پورا کا پورا) بیان کردو، پیچ پاچ نہ کرنا چاہئے ،کچا چٹھابیان کردینا چاہئے ،غور کرنے سے اور بھی نکات اور آداب معلوم ہوسکتے ہیں ۔۱؎غیرضروری سوالات کی ممانعت قرآن پاک میں قرآن شریف میں تو ان احکام کے پوچھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جن کی ضرورت نہ ہوفرماتے ہیں لاَ تَسْئَلُوْ اعَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْ کُمْ یعنی وہ باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ ظاہر کردی جاویں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہوچنانچہ اس آیت کا شان نزول بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ جب حج کی فرضیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو ایک شحص نے پوچھا کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟ آپ نے تین بار سکوت فرمایا پھر ارشاد فرمایا کہ اگر میں ہاں کردیتا توہر سال فرض ہوجاتا اور پھر کسی سے ادانہ ہوسکتا تو جب احکام کے متعلق ایسی باتوں کے پوچھنے سے بھی منع کیاگیا ہے جو غیر ضروری ہیں تو ان باتوں کا کیا پوچھنا جو مضر بھی ہیں ، تجربہ کرکے دیکھئے کہ غیر ضروری سوالات وہی لوگ کیاکرتے ہیں جو کچھ کام کرنا نہیں چاہتے اور جن کے ذہن میں دین کی کچھ وقعت نہیں ہوتی، جن کے دلوں میں علماء کا اور دین کا کچھ ادب نہیں ورنہ دیکھئے کہ ایک کلکٹر سے ملنے جاتے ہیں تو وہاں گنی چنی ہی باتیں کرتے ہیں اور باہر نکل کرکہتے ہیں کہ میں نے قصداً زیادہ باتیں نہیں ------------------------------ ۱؎ وعظ السوال ملحقہ اصلاح اعمال ص۳۳۶