آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مجلس میں طلاق کو اختیار کرلے اس وقت وقوع ہوتا ہے اور اختیار منکوحہ کی شرط فقہاء نے باب الکنایات میں نہیں بیان کی، بلکہ یہ شرط باب التفویض میں مذکور ہے اس میں بعض علماء تک بھی غلطی کرچکے ہیں ۔ چنانچہ علامہ شامی نے ایک فقیہ کی غلطی نکالی ہے، فقہ کا فن بہت دقیق ہے اسی لیے میں فقہ حنفی کے سوا کسی دوسرے مذہب کی فقہی کتاب پڑھانے کی جرأت نہیں کرتا۔۱؎امام صاحب کا قول یا جزئیہ اگر صریح حدیث کے خلاف ہو ہم جیسے نالائق امام اعظمؒ کے بعض فتووں کو غلط کہہ دیتے ہیں ۔ ۲؎ ایک شخص نے کہا کہ اس طرح تو پھر جزئیات فقہیہ میں احتمال غلطی کا رہے گا اس پر فرمایا کہ اگر کسی اور جزئی میں بھی ہم کومعلوم ہوجائے کہ حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے توچھوڑ دیں گے اور یہ تقلید کے خلاف نہیں ہے۔ آخر بعض مواقع میں امام صاحب کے اقوال کو بھی تو چھوڑا گیا ہے۔ ہاں جس جگہ حدیث کے متعدد محمل ہوں وہاں جس محمل پر مجتہد نے عمل کیا ہے ہم بھی اسی پر عمل کریں گے اور اگر خود امام صاحب ہوتے اور اس وقت ان سے دریافت کیا جاتا وہ بھی یہی فرماتے تو گویا اس چھوڑنے میں بھی امام صاحب کی ہی اطاعت ہے۔ ۱؎ راجح ومرجوح میں موازنہ کرکے مرجوح کا ترک کرنا یہ وظیفہ بھی مجتہد کا ہے، گومجتہد مقید ہو ،البتہ اگر مقلد محض کو یہ معلوم ہوجائے کہ اپنے مذہب کی کوئی دلیل ہے ہی نہیں تو اس پر بھی واجب ہے کہ اس قول کوترک کردے۔۲؎ (باقی خود)عامی کو یہ کہنے کا منصب ہی کہاں ہے کہ مجتہد کا قول حدیث کے معارض ہے، اس کو حدیث کا علم مجتہد کے برابر کب ہے؟ نیز وہ تعارض وتطبیق کو مجتہد کے برابر کیسے جان سکتا ہے؟ (حسن العزیز ص۳۵۳ج۴) ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۲؍۲۳۷۰؎ التبلیغ الہدیٰ والمغفرہ:۲۳۳حسن العزیز ۲؍۳۷۰ ۲؎ امدادالفتاویٰ ۴/۴۹۷سوال ۵۵۵