آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
یہ معیار کسی کی تکفیر کے لئے مقرر کیا گیا ہے کہ ایمان کے ادنیٰ سے ادنیٰ احتمال کے ہوتے ہوئے کسی کی تکفیر نہ کریں اور متکلم کی ذات کے اعتبار سے (یہ حکم ہے کہ ) اگر وہ ایک محمل کفر کا بھی معتقد ہوگا تووہ کافر ہوگا۔۱؎ مطلب یہ ہے کہ ننانوے وجوہ سے مراد کلمۂ کفر یہ کی تفسیر یں ہیں ۔ یعنی کسی کلمہ کے معنی میں سواحتمالات ہوں جن میں ننانوے تفسیریں تو موجب کفر ہوں اور ایک تفسیر موجب کفرنہ ہوتو اس کو کافر نہیں کہیں گے اگر یہ (تشریح اور مطلب) مراد نہ لیا جائے تو دنیا بھر کے کافر مسلمان ہی ہوں گے کیوں کہ ان میں اسلام کی بھی تو کچھ باتیں ضروری ہی پائی جاتی ہیں ۲؎ جس شخص میں کفرکی کوئی وجہ قطعی ہوگی (اس کو) کافر کہاجائیگا اور حدیثیں من صلیٰ صلٰوتنا الخ من قال لاالٰہ الااللہ دخل الجنۃ وغیرہ) اس شخص کے بارے میں ہیں جن میں کوئی وجہ قطعی (کفر کی) نہ ہو، اور اس مسئلہ کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی امر قولی یا فعلی ایسا ہو کہ محتمل کفر وعدم کفر دونوں کو ہو، گواحتمال کفر غالب اور اکثر ہوتب بھی تکفیر نہ کریں گے، نہ یہ کہ تکفیر قطعی پر بھی تکفیر نہ کریں گے کیوں کہ کافر کے یہ معنی نہیں کہ اس میں تمام وجوہِ کفر کی جمع ہوں ورنہ جن کا کفر منصوص ہے وہ بھی کافرنہ ہوں گے۔۳؎مزید توضیح سوال ۴۹۸: مشہور ہے کہ اگر کسی شخص میں ننانوے وجہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی تواس پر کفر کا فتویٰ دینا نہ چاہئے تو شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سے کلمات کوکفر کیلئے وضع کیا ہے تو پھر کلمات کفرکو کفر کیلئے وضع کرنے سے کیافائدہ؟ اگرمحض زجر مقصود ہے توہم دیکھتے ہیں کہ فی زماننا بڑے بڑے عالم بعض لوگوں کو ذراذرا سی بات پر بلکہ حقیقت میں کلماتِ کفر کے ارتکاب پرکفر کا فتویٰ دیتے ہیں ،اس فتویٰ کو کس پر محمول کرنا چاہئے؟ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ص:۳۴۱ج۲ ۲؎ حسن العزیز ملخصاً ص:۶۰۲ج۳ ۳؎ امدادالفتاویٰ ص:۳۸۶ج۵