آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب از حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ از بندہ رشید احمد گنگوہی عفا عنہ بعنایت فرمائے بندہ مولوی محمد اشرف علی صاحب دام مجدہم بعد سلام مسنونہ مطالعہ فرمایند آپ کاعنایت نامہ بجواب نیاز نامہ بندہ کے پہنچا اس وقت میرے پاس کوئی سنانے والا نہ تھا اور ہر کسی کو اس کا دکھانا مناسب نہ جانا بعد مدت کے مولوی محمد صدیق گنگوہیؒ گڑھی سے یہاں آئے، اس خط کے سرنامہ کو دیکھ کر انہوں نے اس کے دیکھنے کی خواہش کی، چونکہ وہ بھی محرم راز تھے ان سے بندہ نے پڑھوا کر سنا، مگر موقع جواب کا اس وقت نہ ملا۔ بانتظار مولوی محمد یحییٰ صاحب کے کہ وہ اس وقت اپنے گھر گئے ہوئے تھے اس خط کو اٹھا رکھا، جب وہ گنگوہ آئے تو آج دوسری محرم کو اس کا جواب لکھواتا ہوں ۔ مکرما! امر اول کے باب میں آپ کو جو اشتباہ ہوا وہ دو امر ہیں ، امر اول اشغال طرق مشائخ علیہم الرضوان۔ امر ثانی اشارہ جناب مرشد طال بقاؤہ، لہٰذا ہردو امر کے باب میں بندہ کچھ لکھتا ہے سو آپ بغور ملاحظہ کریں کہ اشغال مشائخ کی قیود و تخصیصات جو کچھ ہیں وہ اصل سے بدعت ہی نہیں اس کو مقیس علیہ ٹھہرانا سخت حیرانی کا موجب ہے خاص کر تم جیسے فہمیدہ آدمی سے کیونکہ تحصیل نسبت اور توجہ الی اللہ مامور من اللہ تعالیٰ ہے اگرچہ یہ کلی مشکِّک ہے کہ ادنی اس کا فرض اور اعلیٰ اس کا مندوب اور صدہا آیات و احادیث سے اس کا مامور ہونا ثابت ہے اور طرح طرح کے طرق و اوضاع سے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلکہ خاص حق تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے گو ساری شریعت اجمالاً وہی ہے کہ جس کا بسط بوجہ طول ناممکن ہے۔