آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تحقیق سے منع فرمایا ہے جس پر دین کا مقصود موقوف نہیں ہے تو جس کو اس کی تحقیق نہ ہوئی ہو وہ اس کے درپے نہ ہو اس لیے امام صاحب نے سائل کو مجمل جواب دیا اس کے سامنے تحقیق نہیں بیان فرمائی کیونکہ اس کا سوال فضول تھا، امام صاحب نے اسی اصل کو بہت سے فروع میں ملحوظ رکھا ہے سو امام صاحب نے اس احتیاط کی وجہ سے اس مسئلہ میں جواب واضح نہیں دیا بلکہ توقف کے عنوان سے سائل کو سوال لاطائل سے روکنا چاہا۔۱؎بہت سے مسائل جانے جاتے ہیں لیکن فتوی نہیں دیا جاتا فرمایا کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ گو فی نفسہ صحیح ہوں مگر مفضی ہوجاتے ہیں مفاسد کی طرف جہاں عوام کو ان کی اطلاع ہوئی اور آفتیں کھڑی ہوئیں (اس لیے ایسے مسائل نہیں بیان کرنا چاہئے) میں نے بہت دفعہ بیان کیا ہے کہ علم دین بعض لوگوں کو مضر ہوتا ہے۔ (تو یہاں ضرر علم سے بچانا مقصود ہے اس لیے کتمان بھی نہ ہوگا) فقہاء نے بہت سے مسائل میں تصریح کردی ہے کہ یُعرف ولا یعرّف۲؎ (کہ جانا اور سمجھا جائے گا، لیکن فتنہ کے خوف سے اور خلاف مصلحت ہونے کی وجہ سے دوسروں کو بتایا نہ جائے گا، تشہیر نہ کی جائے گی)۔جس مسئلہ کو بیان کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو اس میں کیا کرنا چاہئے فرمایا کہ جس مسئلہ پر زور دینے میں فتنہ کھڑا ہوتا ہو اس میں گفتگو بند کردی جائے کیونکہ اس خاص دینی مسئلہ کی حمایت کرنے سے فتنہ کا دبانا زیادہ ضروری ہے ہاں مقتدائے اسلام کو شریعت کی ہربات صاف صاف کہنا چاہئے جیسے امام احمد بن حنبلؒ نے خلق قرآن کے متعلق صاف صاف کہہ دیا تھا اور جو ایسا بڑا مقتداء نہ ہو اس کو بحث کی ضرورت نہیں جہاں مخاطب سمجھ دار منصف مزاج ہو وہاں صحیح مسئلہ بیان کردے اور جہاں بحث مباحثہ کی صورت ہو خاموش رہے۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ بدائع ص:۲۵۶۔ ۲؎ الافاضات الیومیہ ۳؎ الافاضات الیومیہ ۲۹۰ج۷