آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
قید ہے کہ اپنے اختیار سے کوئی کام ایسا نہ کرے کہ بدگمانی ہو اور وہاں محض اظہار حق ہی سے جوکہ مامور بہ ہے بدگمان ہوئے ہیں تو وہ ایسا ہوگیاکہ: وَمَانَقَمُوْامِنْہُمْ اِلاَّ اَنْ یُّؤْا مِنُوْبِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْد۰ یعنی ان کفار نے ان مسلمانوں میں کوئی عیب نہیں پایابجز اس کے کہ وہ خداپر ایمان رکھتے ہیں جو کہ زبردست سزاوارِ حمد ہے۔ تووہاں وہ فعل ماموربہ اور سراسر محمود ہے اور یہاں ایسے امور ہیں کہ ضروری نہیں ہیں ، ان سے بچناممکن ہے ،پس اگر ان سے نہ بچے گا تولازم آئے گا کہ خود اپنے آپ لوگوں کو بدگمان کیا۔غیرضروری کام کے لئے متہم ہونا مناسب نہیں میں یہ نہیں کہتا کہ علماء اپنی جائدادیں تلف کردیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس میں جو تو سیع ہوتی ہے اس سے بچیں کیونکہ وہ غیر ضروری ہے، پس غیر ضروری کے لئے متہم ہونا مناسب نہیں ،یہ وجہ ہے جس کے لئے میں کہتاہوں کہ اہل علم کے لئے تقلیل تعلقات (تعلقات میں کمی کرنا)مناسب ہے ،تو یہ بھی اسی اصل کی فرع ہے کیونکہ اس میں خود غرضی کے ایہام سے بچنے کو کہا گیا ہے اور توسیعِ تعلقات کی صورت میں نصیحت کرنے سے خود غرضی کا ایہام ہوتا ہے ،پس اس ایہام سے بچنا لاز م ہے اور اس سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ توسیعِ تعلقات کو ترک کیاجائے نہ یہ کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر (یعنی اچھے کام کاامر کرنا اور بری باتو ں سے روکنا) ہی کوترک کردیا جائے کیونکہ وہ توماموربہ ہے ،پس یہ بھی اسی کی ایک فرع ہوئی، یہ طلباء کے کام کی بات ہے کیونکہ یہ پڑھ کر مقتداء بنیں گے اس وقت ان کو اس سے فائدہ ہوگا۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اتباع المنیب ملحقہ نظام شریعت ص۱۷۵