آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تعالیٰ کے سامنے دے سکوں گا اس وقت جواب دیتا ہوں ورنہ جواب ہی نہیں دیتا، بہت عجیب مراقبہ ہے مجھ کو پسند آیا۔۱؎جج و وکلاء اور اہل فتویٰ و علماء کا فرق اس استحضار حساب کی وجہ سے علماء و غیر علماء میں بہت فرق ہے کیا آپ نے کسی بیرسٹر یا وکیل کو یہ بھی دیکھا ہے کہ اس نے اپنی کسی غلطی کا اعلان کیا ہو حالانکہ کیا ان سے غلطی ہی نہیں ہوتی، ضرور ہوتی ہے لیکن کہیں آپ نے دیکھا ہے کہ کسی نے اپنی غلطی کو شائع کیا ہو کہ اس کی غلطی سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے اور میں ایسے علماء آپ کو دکھلاتا ہوں جنہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں ہم سے غلطی ہوگئی ہے ہم اس سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ امت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے، اگر وہ ایسا نہ کریں تو امت گمراہ ہوجائے اور یہ اس کے ذمہ دار اور اللہ تعالیٰ کے یہاں مؤاخذہ دار ہوں ۔۲؎ضروری دستور العمل الحمدﷲ میرے یہاں ایک سلسلہ ہے ’’ترجیح الراجح‘‘ کا جس میں جتنی غلطیاں مجھ سے ہوتی ہیں ، ان کو وقتاً فوقتاً سال کے ختم پر شائع کرتا رہتا ہوں ، اگر کوئی بچہ بھی متنبہ کردے اورمجھے اطمینان ہوجائے کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو بلا تامل تسلیم کرلیتا ہوں اور اپنی رائے سے رجوع کرلیتا ہوں ۔٭ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ مزاج میں استقلال نہیں کبھی کچھ فتوی دیتے ہیں کبھی کچھ اور کیا یہ اچھا ہوتا کہ جہل پر جما رہتا؟ اور اگر غلطی معلوم ہوجائے پھر بھی وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہانکتے رہنا چاہئے تاکہ امت گمراہ ہو؟۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص ۴۶ ۲؎ وعظ شفاء العی ملحقہ تدبیر توکل ص۲۳۰ ۳؎ الافاضات الیومیہ ۱۰؍۵۹۔ ٭ تفصیل کے لئے دیکھئے ص۱۸۷تاص۲۰۴