آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ترددکے بعد دوسروں کے فتوے کے ساتھ موافقت حضرت مولانا صدیق احمد صاحب کاندھلوی ؒ سے ایک دوسرے مسئلہ میں طویال مکاتبت کے بعد اخیر میں حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں : اس کے بعد پھر ایک بار مراجعت مکاتبت کی ہوئی جس کی نقل محفوظ نہیں ، جس کے بعد خود اس احقر کو اپنے جواب میں تردد ہوگیا ، اور عمل میں مولانا صدیق احمد صاحب کے ساتھ میں نے موافقت کی۔۱؎ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : مجھ کو اپنا جواب نہ یاد ہے نہ میرے سامنے ہے کہ اس کو دیکھتا، بہرحال اگر میرا جواب درمختاار کے خلاف ہے تو صحیح نہیں ، درمختار پر عمل کیاجائے گا۔۲؎ہمارے اکابر اپنی غلطیوں کے اقرار سے کبھی نہیں شرمائے حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : میں نے تو’’ ترجیح الراجح‘‘ کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے کہ جس کو جو غلطی میری تصانیف میں ملے اس سے مجھے مطلع کرے، تاکہ اگر مجھے اپنی غلطی کاا طمینان ہوجائے تو اس سے اعلان کے ساتھ رجوع کرلوں ، چنانچہ مجھ سے جہاں کہیں کوئی لغزش ہوئی ہے اس کا دل کھول کر فراخ دلی سے اقرار کیا ہے، اور جہاں مجھے اپنی غلطی کا شرح صدر نہیں ہوا، وہاں دوسرے کا قول بھی نقل کردیا ہے تاکہ جو قول جس کے جی کو لگے وہ اسی کو اختیار کرلے، میں نے ہمیشہ یہی کیا کہ خواہ مخواہ اپنی بات کو بنایا نہیں اور یہ برکت حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کی ہے، ویسے تو یہ خصلت اپنے سب اکابر میں تھی، ہمارے اکابر اپنی غلطیوں کے اقرار سے کبھی نہیں شرمائے۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ۱/۶۳۰ سوال۵۴۴ ۲؎امدادالفتاویٰ ۴/۳۶۳ ۳؎ الافاضات الیومیہ ۹؍۴۰۸ قسط:۲، ملفوظ:۲۳۱