آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مبہم ومہمل غیر منقح سوال کا جواب نہیں دینا چاہئے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ جو آج کل حکومت کے مقابلہ کے واسطے لوگوں نے تدابیر اختیار کررکھی ہیں ان کے متعلق شرعی حکم کیاہے؟ فرمایا کہ یہ سوال ہی مہمل ہے ،ان تدابیر کا کچھ نام بھی ہے یانہیں ؟ واقعہ کی صورت بیان کرکے حکم معلوم کرنا چاہئے تھا ، اس کے تویہ معنی ہوئے کہ مجھ کو علم غیب ہے کہ جوصورت تمہارے ذہن میں ہے اس کامجھ کو بھی علم ہے، یا یہ کہ مجھ کو تمام صورتوں کا علم ہے پھر اس کے بعد دومعنی ہوئے ایک تویہ کہ مجھ کو تمام صورتوں کا حکم بیان کرنا چاہئے، کیونکہ اگر ایک بھی بیان سے رہ گئی تو نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے اخیر میں کہہ دیا کہ ان میں سے اس صورت کا حکم نہیں معلوم ہوا جس کو میں معلوم کرناچاہتا تھا ، دوسرے یہ معنی ہوئے کہ میرا مشغلہ یہی ہے کہ تمام شقوق کی تحقیق کیاکروں اور پھر ان کا حکم ظاہر کیاکروں ، آپ توایک ٹکابھر زبان ہلاکر نواب بن کر بیٹھ گئے، اب میں تعمیل حکم کی انجام دہی میں مصروف کارہوں ،کیابدتمیزی اور بدتہذیبی کی بات ہے ،تم کوسوال پوراکرنا چاہئے تھا،اس وقت تم نے یہ مہمل سوال کرکے قلب کو پریشان کیا ،اگر آدمی کو بولنے کی تمیز نہ ہو توخاموش ہی بیٹھارہے، کون سایہ سوال فرض وواجب تھا اور کہاں کے آپ اتنے بڑے مرجع العالم مفتی ہیں کہ لوگ آپ کے پاس استفتیٰ بھیج کر ان صورتوں کا حکم معلوم کیاکرتے ہیں ؟ فرمایا: لوگوں کو بیٹھے بٹھلائے کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور چاہئے اور کچھ نہیں تو یہ ہی سہی کہ فضول سوال کرکرکے مولویوں ہی کو تختۂ مشق بنائیں ، جوچیزیں قابل اہتمام اور ضروری ہیں ان کا توکہیں نام ونشان نہیں نہ ان کی فکر، بس غیر ضروری(چیزوں ) میں ابتلاہورہا ہے ۔ اب ضروری غیرضروری کی تفسیر سمجھو! جس چیز کا اپنے سے تعلق نہ ہوبس وہ غیر ضروری ہے،پس جو چیز ضروری ہو آدمی اس کا حکم معلوم کرے،آج ہی خط آیا ہے