آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
پوچھا آخر آپ کا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا میرا مذہب یہ آیات قرآن ہیں ۔ کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ ﷲِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِط وَلا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰی اَن لَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ ترجمہ: ’’نہ بھڑکائے غصہ تم کو کسی قوم کا اس بات پر کہ نہ تم انصاف کرو بلکہ تمہیں انصاف کرنا چاہئے وہی تقویٰ کے قریب ہے۔۱؎اختلافی مسائل کی شان مسائل بعض قطعی ہوتے ہیں ان میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی بعضے اجتہادی وظنی ہوتے ہیں ان میں سلف سے خلف تک شاگرد نے استاد کے ساتھ، مرید نے پیر کے ساتھ، قلیل جماعت نے کثیر جماعت کے ساتھ واحد نے متعدد کے ساتھ اختلاف کیا ہے اور علماء امت نے اس پر نکیر نہیں کی اور نہ ایک نے دوسرے کو ضال اور عاصی کہا نہ کسی نے دوسرے کو اپنے ساتھ متفق ہونے پر مجبور کیا۔۲؎اختلافی مسائل میں ہمارے اکابر کا توسع فرمایا کہ ہمارے استاذ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے مزاج میں ایسے اختلافی مسائل کے بارے میں بڑا توسع تھا، میں نے (یعنی حکیم الامتؒ نے) ان سے ایک مسئلہ پوچھا جس میں حضرت مولانا کا فتوی حضرت گنگوہی کے فتوے سے مختلف تھا،اپنی تحقیق کے مطابق مسئلہ بتلادیا اور پھر یہ بھی فرمادیا کہ مولانا گنگوہیؒ کا فتویٰ اس کے بارے میں یہ ہے اب تمہیں اختیار ہے جس کو چاہو اختیار کرلو۔۳؎ ------------------------------ ۱؎؎ مجالس حکیم الامت ص:۱۲۴ ۲؎ افادات اشرفیہ ص:۵ ۳؎ مجالس حکیم الامت ص۱۲۴