آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بریلویوں کی تکفیر میں حضرت تھانویؒ کی احتیاط ہم ان کو (بریلی والوں یعنی رضاخانیوں کو) کافرنہیں کہتے اگرچہ وہ ہمیں (کافر) کہتے ہیں ،ہماراتومسلک یہ ہے کہ کسی کو کافر کہنے میں بڑی احتیاط چاہئے، اگر کوئی حقیقت میں کافر ہے اور ہم نے نہ کہاتوکیاحرج ہوا۔ اور اگر ہم نے کا فر کہا اور حقیقتِ حال اس کے خلاف ہے تویہ بہت خطرناک بات ہے، ہم تو قادیانیوں کو بھی کافرنہ کہتے تھے اور وہ ہمیں کہتے تھے ،ہاں اب ثابت ہوگیا(قادیانی) مرزاصاحب کی رسالت کے قائل ہیں تب ہم نے کفر کا فتویٰ دیا ہے۔ کیوں کہ یہ توکفر صریح ہے اس کے سواان کی تمام باتوں کی تاویل کرلیا کرتے تھے گووہ تاویلیں بعید ہی ہوتی تھیں ۔ ہم بریلی والوں کو اہل ہویٰ کہتے ہیں اور اہل ہویٰ کا فرنہیں ۔ حضرت والا کا یہ طرز عمل سلف کے موافق ہے کہ انہوں نے معتزلہ تک کوکافر کہنے میں احتیاط کی ہے اگر چہ ان کے عقائد صریح کفر کے (بھی) ہیں ،لیکن سلف نے احتیاطاً یہ اصول رکھا ہے لانکفّر اہل القبلۃ ( ہم اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے)اور ان کے معاملہ کو حق تعالیٰ کے سپردرکھا اور ان کے اقوال کے لئے ایک کلی تاویل کرلی کہ متمسک (ماخذ) اپنا وہ بھی قرآن وحدیث ہی کو کہتے ہیں گوتمسک میں غلطی کرتے ہیں ،توان کاکفر لزومی ہوانہ کہ کفر صریح۔ ایک مرتبہ حضرت والا سے ایک مولوی صاحب نے یہی گفتگو کی کہ ہم بریلی والوں کوکافر کیوں نہ کہیں ؟ فرمایا کہ کافر کہنے کے واسطے وجہ کی ضرورت ہے نہ کہ کافر نہ کہنے کے لئے تو وجہ آپ بتلائیے کہ کیوں کہیں ؟ مولوی صاحب نے بہت سی وجوہات پیش کیں اور حضرت والا نے سب کی تاویل کی گوبعید تاویلیں تھیں ۔