آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کبیر میں ہے (وعن ابن عباس الا ان یبذون فیحل اخراجہن لبذائہن وسوء خلقہن فیحل للازواج اخراجہن من بیوتہن) مگر یہ روایت ضعیف ہے اور مذہب میں ماخوذ نہیں ۔۱؎ خلیل احمد عفی عنہ ۵؍رجب ۱۳۲۵ھاضافہ از تذکرۃ الرشید شبہ- : مدرسہ میں جو چندہ وغیرہ کا روپیہ آتا ہے وہ وقف ہے یا مملوک؟ اگر وقف ہے تو بقاء عین واجب ہے، اور صرف بالاستہلاک ناجائز ، اگر مملوک ہے اور مہتمم صرف وکیل تو معطی چندہ اگر مرجاوے تو غرباء و ورثاء کا حق ہے اس کی تفتیش وکیل کو واجب ہے، زمانۂ شارع علیہ السلام و خلفاء میں جو بیت المال تھا اس میں بھی یہ اشکال جاری ہے، بہت سوچا مگر قواعد شرعیہ سے حل نہ ہوا، اور مختلف چندوں کو خلط کرنا استہلاک ہوجانا چاہئے، اورمستہلَک ملکِ مستہلِک ہوکر جو صرف کیا جائے اس کا تبرع ہوگا اور مالکوں کا ضامن ہوگا، اگر یہ ہے تو اہل مدرسہ یا امین انجمن کو سخت دقت ہے امید کہ جواب باصواب سے تشفی فرمائیں گے‘‘۔ الجواب: مدرسہ کا مہتمم قیم و نائب جملہ طلبہ کا ہوتا ہے، جیسا (کہ) امیر نائب جملہ عالم کا ہوتا ہے، پس جو شیٔ کسی نے مہتمم کو دی مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے، اس کے قبضہ سے ملک معطی سے نکلا اور ملک طلبہ کا ہوگیا، اگر چہ وہ مجہول الکمیۃ والذوات ہوں مگر نائب معین ہے پس بعد موت معطی کے ملک ورثہ معطی کی اس میں نہیں ہوسکتی اور مہتمم بعض وجوہ میں وکیل معطی کا بھی ہوسکتا ہے، بہر حال نہ یہ وقف مال ہے اور نہ ملک ورثہ معطی کی ہوگی، اور نہ خودمعطی کی ملک رہے گی ۔ واللہ اعلم۔ رشید احمد. ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ج۶،فتاویٰ خلیلیہ ص۳۱۹ ۲؎ تذکرۃ الرشید ، فتاوی خلیلیہ ص: ۳۱۸ تا ۳۲۲