آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
خود چارپڑھی آپ نے جواب دیا کہ خلاف کرنا موجب شر ہے روایت کیا اس کو ابوداؤد نے ۔ فائدہ: اس حدیث سے بھی معلوم ہو اکہ باوجود یکہ ابن مسعود ؓ کے نزدیک جانب راحج سفر میں قصر کرنا ہے مگر صرف شروخلاف سے بچنے کے لئے اتمام فرمالیا جوجانب مرجوح تھی مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بھی جائز سمجھتے تھے بہرحال ان حدیثوں سے اس کی تائید ہوگئی کہ اگر جانب مرجوح بھی جائز ہوتو اسی کو اختیار کرنا اولیٰ ہے ۔ اور اگر اس جانب مرجوح میں گنجائش عمل نہیں بلکہ ترکِ واجب یا ارتکاب امرنا جائز لازم آتا ہے اور بجز قیاس کے اس پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی اور جانب ِراجح میں صحیح صریح موجود ہے ،اس وقت بلاتردد (ترک تقلیدکرکے) حدیث پر عمل کرنا واجب ہوگا ، اور (خاص) اس مسئلہ میں کسی طرح تقلید جائز نہ ہوگی کیونکہ اصل دین قرآن وحدیث ہے اورتقلید سے یہی مقصود ہے کہ قرآن وحدیث پر سہولت وسلامتی سے عمل ہو، جب دونوں میں موافقت نہ رہی ، قرآن وحدیث پر عمل ہوگا ، ایسی حالت میں بھی اسی پر جمارہنا یہی تقلید ہے جس کی مذمت قرآن وحدیث واقوال علماء میں آئی ہے۔۱؎معاملات میں خصوصیت کے ساتھ توسع اختیار کرنا شریعت میں وسعت ہے میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر کسی مسئلہ میں مجتہدین کا اختلاف بھی ہو مگر آج کل کے مجتہدین کا اختلاف نہیں ، اور اس میں عام ابتلاء ہو تو اس کو بھی جائز کہنا چاہئے،وجہ یہ ہے کہ معاملات بہت گندے ہورہے ہیں ، اگر مختلف فیہ امور کو حرام بتلایا جائے گا تو اگر اس پر کوئی عمل کرے گا تو اس کو تنگی ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ وہ شریعت کو تنگ سمجھنے لگے گا اور اگر عمل نہ کرے گا تو وہ ان کو اور محرمات اجماعیہ کو برا سمجھے گا اور دونوں میں مبتلا ہوجائے گا اس لیے غلو نہیں کرنا چاہئے تنگی میں ، بلکہ وسعت کرنی چاہئے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وسعت ہونے سے اعتقاد درست ہوگا کہ شریعت کیسی اچھی چیز ہے ------------------------------ ۱؎ الاقتصاد ص۸۴،۸۵