آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
الجم بلجام من النار یوم القیامۃ اس کا حل یہ ہے کہ جو شخص کسی فتنہ پردازی کے لیے مسئلہ پوچھتا ہے وہ ’’سائل عن علم‘‘ ہے ہی نہیں بلکہ مجادل (جھگڑا لو اور فسادی) ہے اور جدال جاہلوں کا شیوہ ہے اسی کی نسبت قرآن شریف میں ہے۔ وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَماً، اور وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ (اور جب ان سے جہلاء گفتگو کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کرتے ہیں ، اور وہ لوگ جو لغو و فضول باتوں سے الگ رہتے ہیں )۔ جس طریقہ سے بعض علاج فی نفسہ صحیح ہوتے ہیں مگر کسی عارض کی وجہ سے موقوف رکھے جاتے ہیں مثلاً کسی کو جوع البقر (گائے جیسی بھوک) کا مرض ہو تو اس کو دوا یا غذا مزہ دار نہ دینا چاہئے کیونکہ وہ ضرور مقدار سے زیادہ کھالے گا اور نقصان ہوگا ایسے ہی بہت سے مسائل صحیح ہوتے ہیں لیکن بعض مفاسد کو مستلزم ہوتے ہیں اس وقت ان پر فتویٰ نہ دینا کتمان حق نہیں ہے بلکہ تقدم بالحفظ از مرض ہے۔ (یعنی مرض سے حفاظت کی پیشگی تدبیر ہے)۔ ۱؎صحیح جواب معلوم نہ ہونے کے وقت لاعلمی ظاہر کرنے کی تاکید یہ کوئی عار کی بات نہیں ، جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عالم کون ہوگا؟ آپ نے بہت سے سوالوں پر لا ادری فرمادیا اور جب وحی نازل ہوئی اس وقت بتلادیا اور واقعی جب کل علوم کا احاطہ خاصہ ہے حق تعالیٰ شانہ کا تو بعض چیزوں کا نہ جاننا ممکن کے لوازم سے ہے تو اس لازم کا اگر اقرار کرلیا تو کون سی نئی بات ہوئی بلکہ واقع میں تو غیر معلومات عدد میں معلومات سے زیادہ ہی ہے قال اﷲ تعالیٰ: وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلًا( اور تم کو تو بہت تھوڑا علم دیا ہے)۔ ------------------------------ ۱؎ مجالس الحکمت ص:۲۹۔