آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دارالافتاء کے ذمہ داروں کو تنبیہ سچ بات یہ ہے کہ اس میں ذراسی کوتاہی علماء حقیقی کی بھی ہے کہ وہ ہرکس وناکس کو مولوی بنا کراس کی دستاربندی کر دیتے ہیں اور اسے تعلیم وفتوی دینے کی اجازت دیدیتے ہیں پہلے انہیں دیکھ لینا چاہئے جس کی طینت خراب ہو اور جس میں اہلیت مقتدابننے کی نہ ہو اس کو ہر گزا ن کا موں کی اجازت نہ دیں بلکہ درسیات بھی نہ پڑھائیں صرف ضروریات دین کے موافق اس کی تعلیم کردیں ۔ بدگہرراعلم وفن آموختن ٭ دادن تیغ است دست راہزن نااہل کو علم وفن سکھانا گویاڈاکو کے ہاتھ میں تلواردینا ہے۔ سلف صالحین میں اس بات کا خاص اہتمام تھا کہ جس شخص کے متعلق آثار سے معلوم ہوجاتا تھا کہ اس میں حب دنیا غالب ہے تو اس کو مولویت کے درجہ تک بھی نہیں پہنچاتے تھے، ارشاد وتلقین اور فتوی نویسی کا کیاذکر ، آج کل مدارس میں بالکل اس کی احتیاط نہیں کی جاتی، اسی کے یہ نتائج ہیں کہ ایسے ایسے عالم پیداہوتے ہیں ،دیکھئے ہر کام میں اہلیت اور طبیعت کی مناسبت دیکھی جاتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ دین کے مقتدا بنانے کے لئے اہلیت اور مناسبت نہ دیکھی جاوے ،ایسے لوگوں میں علم پڑھنے سے بجائے تحقیق کے یہ مادہ پیداہوجاتا ہے کہ زور تقریر سے جس مدعاکو چاہا الٹی سیدھی دلیل قائم کرکے ثابت کردیا جیسا کہ اس فتوی دینے والے نے ساس کی حلت کو ثابت کردیا بات بنالینا تو کچھ مشکل نہیں البتہ حق بات کو معلوم کرلینا یہ مشکل ہے وہ بلاعلم حقیقی اور نور علم کے نہیں حاصل ہوسکتا اور نور علم حاصل ہونے کے لئے بڑے مجاہدات اور نفس کشی کی ضرورت ہے باقی جب ایک غرض کو سامنے رکھ لیا وہ جائز ہو یا ناجائز تو اس کے لئے بات کا بنانا کیا مشکل ہے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص۱۵۲