آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
یہ مطلب نہیں کہ صوفی لامذہب ہوتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ محتاط ہوتا ہے اور ہر مسئلہ میں احتیاط کی جانب کو اختیار کرتا ہے ورع اور تقوی اسی کا نام ہے، ہمارے فقہاء نے بھی اس کی تصریح کی ہے:رِعَایِۃُ الخِلافِ وَالْخُرُوْجُ مِنْہُ اَوْلٰی مَالَمْ یَرْتَکِبْ مَکْرُوْہَ مَذْہَبِہِ۔کہ اختلاف سے بچنا مستحب ہے جب تک کہ اپنے مذہب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ ہو۔۱؎’’استفت بالقلب‘‘کی تشریح اور اس کا محل وموقع جہاں تاویل کی صحت کا احتمال بھی ہو مگر دل قبول نہ کرے وہاں بھی اس پر عمل نہ کیا جائے ، ایسے ہی مواقع کے لئے یہ حکم ہے۔ استفت قلبک ولو افتاک المفتون کہ باطنی مفتی (یعنی قلب کی شہادت) کے خلاف ظاہری مفتی کا قول نہ لیا جائے خصوصاً جب کہ مفتی خود مفتون ہو، وہاں تو فتووں پر اعتماد ہی نہ کرنا چاہئے بلکہ فتوی کے ساتھ اپنے دل کو بھی دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے،جب دل کو لگتی ہے اس وقت جواز کے سارے فتوے رکھے رہ جاتے ہیں اور اس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کہ کھٹک کی بات کو دور نہ کیاجائے۔۲؎ حضرت نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے نیکی اورگناہ کے متعلق سوال کیا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ (بڑی) نیکی حسن خلق ہے اورگناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس پر لوگوں کے مطلع ہونے کوناگوار سمجھو(روایت کیا اس کو مسلم وترمذی نے )۔ حدیث میں گناہ سے مراد وہ امور ہیں جن کے گناہ ہونے کی کوئی نص نہیں مگر کسی کلیہ سے اس میں گناہ ہونے کا شبہ ہوجاوے تو ایسے امور کے لئے آپ نے یہ پہچان بتلائی اور یہ پہچان اسی قلب کے اعتبار سے ہے جو سلیم ہو چنانچہ صحابی کا مخاطب ہونا اس کا قرینہ ہے ۔ ------------------------------ ۱؎ ارضاء الحق ملحقہ رضاوتسلیم ص ۸۹ ۲؎ ارضا ء الحق ملحقہ تسلیم ورضاء۱۵؍ ۹۴،۹۶