آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بالآخر مولوی صاحب نے کہا کہ اگر کچھ وجہ نہ ہو تو کیا یہ کافی نہیں کہ وہ ہم کو کافر کہتے ہیں ، اور یہ ثابت ہے کہ مسلمان کوکافر کہنے والا کافر ہے بس اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان جانتے ہیں اور وہ ہم کو کافر کہتے ہیں توہم کو یہ بات ماننی چاہئے کہ کفر لوٹ کرانہیں پرپڑتا ہے ورنہ لازم آتاہے کہ ہمیں اپنے اسلام میں شک ہے۔ فرمایا:غایت سے غایت تمام دلیلوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کفر لزومی ہے ، کفر صریح تونہ ہوا، پس اگر واقع میں کافر ہوں اور ہم نہ کہیں تو کیا ہم سے قیامت کے دن بازپرس ہوگی؟ اوراگر ہم کا فر کہیں تو کتنی رکعات کا ثواب ملے گا؟سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تضییع وقت ہے اور بھی تو بہت کام ہیں ۔ مگر سوال نماز کے متعلق ہوسکتا ہے (کہ ان کی اقتدا ء میں نماز پڑھنا درست ہے یانہیں ،کیوں کہ ) اس کے لئے تکفیر مسلم کا شبہ ہی کافی علت ہے اقتداء کے عدم جواز کی ،تو اس کا جواب ہے الیقین لایزول بالشک (یعنی یقین شک سے زائل نہیں ہوتا )جب مومن ہونے کا یقین تھا اورکفر ہونے میں شک ہے تومحض شک کا اعتبار نہ کیا جائے گا،اور شک کی وجہ سے اس کو کافر نہ کہاجائے گا ، اس لئے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہوگا) ایک شخص نے پوچھا کہ ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تونماز ہوجائے گی یانہیں ، فرمایا ، ہاں ۔۱؎کسی کافر فرقہ کی طرف اپنے کو منسوب کرنا بھی موجب للکفر ہے تکفیر کے دودرجے تکفیر کے دودرجے ہیں ایک فی مابینہ وبین اللہ یعنی جو معاملات عبداور حق تعالیٰ ------------------------------ ۱؎ ملفوظات کمالات اشرفیہ ص۳۸۴