آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اگر ایک ہی خط میں بہت سے سوالات ہوں تو کیا کرنا چاہئے ایک صاحب نے بہت سے سوالات ایک خط میں لکھ کر بھیجے یہاں سے یہ جواب گیا کہ ایک خط میں دو تین سوالوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اتنی فرصت نہیں ، دو تین سوال ایک خط میں ہوں تو طبیعت پر بار نہیں ہوتا ورنہ اگر پچاس پچاس سوالات دو خط میں بھی ہوئے تو انہیں کا ختم کرنا مشکل ہے بقیہ ڈاک یوں ہی بلا جواب پڑی رہے اور نہ معلوم کب تک جوابوں کی نوبت نہ آیا کرے۔ بعضوں نے یہ بھی رائے دی کہ جس خط میں بہت سے سوالات ہوں اس کو رکھ لیا جایا کرے اور دو دو تین تین سوالات کے جوابات روز لکھ کر جب سوالات ختم ہوجایا کریں تب بھیج دیا جایا کرے، اس میں ظاہر ہے کہ کس قدر طوالت اور پریشانی ہے دوسرے کو بھی انتظار جواب کی سخت تکلیف ہوگی، کیونکہ نہ معلوم سب کے جوابات کب ختم ہوں اور خطوط محفوظ رکھنا، روز روز جواب لکھنا اور روزمرہ کا کام ختم کرکے پھر اس کو یاد کرکے لے کر بیٹھنا اور اتنے دنوں تک طبیعت پر بوجھ علیحدہ، اس میں مجھے کس قدر پریشانی اور انتظام کی دقت ہے۔۱؎وعظ و تقریر میں مسائل نہیں بیان کرنا چاہئے پہلے مجھ کو شبہ تھا کہ علماء وعظ میں احکام کیوں نہیں بیان کرتے صرف ترغیب وترہیب پر اکتفاء کرتے ہیں اپنے بزرگوں پر بھی یہی شبہ تھا لیکن پھر خود تجربہ سے معلوم ہوا کہ وعظ میں مسائل بیان کرنا ٹھیک نہیں بالخصوص اس زمانے میں جب کہ بد فہمی کا بازار گرم ہے مگر ترغیب دینا مناسب ہے ترغیب ہی دینا چاہئے، یہ تجربہ مجھ کو لکھنؤ کے ایک وعظ سے ہوا، میں نے چند مسئلے ربوٰ کے متعلق ایک دم سے بیان کردئیے، سامعین میں بعض مسائل میں اختلاف ہوگیا میرے پاس مکرر تحقیق کے لیے آئے۔ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۱؍۲۷۵۔