آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
صحیح جواب دے اور اب یعنی لفظ السوال ارشاد فرمانے میں تینوں صورتوں کو یہ حکم شفاء شامل ہوگیا ،پس خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ سائل ہرحال میں شفاء یابوں میں داخل ہوگیا۔۱؎مسائل میں غلطیوں کے ذمہ دار اہل فتاوی ہیں فرمایا جن مسائل کی غلطی دقیق ہے اس میں عوام الناس تو معذور ہوں گے ان کو کچھ گناہ نہ ہوگا اہل فتویٰ کی گردن نپے گی، یہی حدیث سے معلوم ہوتا ہے من افتی بغیر علم فانما اثمہ علی من افتاہ۔ اس حصر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو کچھ گناہ نہ ہوگا۔۲؎مسئلہ کا جواب دینا بہت مشکل کام ہے فرمایا کہ میں بڑا ڈرتا ہوں مسئلہ بتلانے سے کانپتا ہوں ، اس قدر کوئی کام مشکل نہیں معلوم ہوتا جس قدر مسائل کا بتلانا مشکل معلوم ہوتا ہے اور آج کل لوگوں کو اسی میں زیادہ جرأت ہے۔۳؎مسئلہ بتلاتے اور فتوی دیتے وقت کس چیز کا استحضار ضروری ہے فرمایا کہ ایک بزرگ کا قول ہے کہ جب مجھ سے کوئی مسئلہ دریافت کرتا ہے تو اس کے جواب کے قبل میں یہ تصور کرتا ہوں کہ اگر قیامت کا میدان ہو وہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کرکے مجھ سے یہ سوال کیا جاتا تو میں کیا جواب دے سکتا ہوں اور اس وقت جو جواب دوں گا تو اس جواب کی دلیل بھی مجھ سے پوچھی جائے گی، کہ یہ کہاں سے کہا، جب یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اگر دلیل پوچھی گئی تو اپنے جواب کی دلیل بھی حق ------------------------------ ۱؎ وعظ شفاء العی ص۲۳۰،۲۳۱ ۲؎کلمۃ الحق ص:۱۲۱۔ ۳؎ الافاضات الیومیہ