آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کو قوت تنفیذ ہاتھ میں نہ ہونے کے سبب ادا نہیں کرسکتے ،مگر جب حکومتِ کافرہ نے کسی کو قاضی یاوالی بنادیا تو عدم قدرت کا مانع مرتفع ہوگیا، لہٰذا اس کی تعبیر یوں کی جائے گی کہ سلطان یا والی کافر نے جو کسی کو عہدۂ قضا وغیرہ سپردکیا ہے دراصل وہ سپرد گی اہل اسلام کی جانب سے ہے (جس پر عامہ مسلمین کا سکوت بھی دال ہوسکتا ہے۔ مولانا) اور حکومت کافرہ صرف پیام رساں ہے اور اس منظوری وپیام رسانی کی شرط رفع مانع یعنی قوت تنفیذ حاصل ہونے کے واسطے ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حکومت کافرہ کی طرف سے جو تقرر قاضی کا ہو اہو وہ تولیت قضا نہیں ، بلکہ تولیت قضا کی شرط ہے پس اس تقریر سے اہل اسلام پر کفار کی ولایت کا شبہ بحمداللہ بالکل رفع ہوگیا فتدبروتشکر۔ نیز یہاں کے جواب میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اس کی نظیر تقلد قضا من الباغی المتغلب ہے اور اس میں شمس الائمہ نے یہی توجیہ کی ہے جو ابھی مذکور ہوئی، عبارت شمس ائمہ کی تتمہ رفاق کے حاشیہ میں مذکور ہے ۔ (تحریر مولانا عبدالکریم صاحب حسبِ حکم حکیم الامت حضرت تھانویؒ ، تصویب حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ،الحیلۃ الناجزۃ ص۲۱)تراضیٔ مسلمین سے قاضی کا تقرردرست نہیں تراضیٔ مسلمین سے قاضی کا تقرردرست نہیں ،چنانچہ شامی نے بزازیہ سے نقل کیا ہے :لواجتمع اہل بلدۃ علی تولیۃ واحد القضا ء لم یصح الخ اور علامہ شامی نے جواس کے بعد فرمایا ہے قلت وہـذاحیث لا ضرورۃ والافلہم تولیۃ القاضی کما یاتی بعدہ اس میں اول تو سخت اشکال یہ ہے کہ عبارت آئندہ جس کا حوالہ دیاگیا ہے اس میں یجعلونہ والیافیولی قاضیا ہے اور براہ راست عامہ کی طرف سے تقرر قاضی کا اس میں کوئی ذکر ہی نہیں ،پس مدعاثابت نہ ہوا۔