آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب میں مخاطب پر بھی نگاہ رکھنا ضروری ہے اسی طرح مولانا گنگوہیؒ نے ایک سوال کا فیصلہ فرمایا کہ اختلاف محل سے جواب مختلف ہوگیا کسی نے پوچھا تھا کہ قبروں سے فیض ہوتا ہے یا نہیں ؟ مولانا نے فرمایا کہ فیض کون حاصل کرتا ہے اس سائل نے کہا مثلاً میں فرمایا کہ نہیں ہوتا مطلب یہ کہ اہل کو ہوتا ہے نااہل کو نہیں ہوتا سبحان اللہ کیا خوب جواب عطا فرمایا ۔۱؎ فرمایا کہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے ایک عورت نے مسئلہ پوچھا کہ ایک روز گھر میں تیل نہ تھا ایک رئیس کی سواری شب کو مکان کے سامنے سے گذری۔ سلسلہ دراز تھا میں نے اپنے دروازے میں بیٹھ کر چرخہ چلایا نہ معلوم وہ تیل حرام تھا یا حلال، اس سوت سے نفع حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ دریافت فرمایا تم کون ہو؟ عرض کیا میں بشر حافی کی بہن ہوں ۔ فرمایا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو اجازت دیدیتا بشر حافی کی بہن کو اجازت نہیں دے سکتا۔۲؎تشقیق کے ساتھ مختلف شقوں کا جواب دینا سخت غلطی ہے علماء محققین نے اس کی سخت ممانعت کی ہے کہ تشقیق کے ساتھ جواب دیا جائے اس میں بعض اوقات سائل مفید شق کا دعویٰ کرنے لگتا ہے۔۳؎ میں یہ بات اہل علم کے لیے بیان کرتا ہوں کہ مختلف شقوں کا حکم ایک دم سائل کو نہیں بتلانا چاہئے کہ اگر یوں ہے تو یوں حکم ہے اور یوں ہے تو یہ حکم ہے، تشقیقات کے ساتھ جواب نہیں دینا چاہئے بعض اوقات سائل کو اس میں خلط ہوجاتا ہے (بہتر طریقہ یہ ہے کہ) پہلے واقعہ کی تحقیق کرلینا چاہئے جب ایک شق کی تعیین ہوجائے اس کا حکم ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص۸۸۔ ۲؎ الافاضات ۲؍۳۸۳۔ ۳؎ الافاضات ۲؍۳۸۴۔