آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ضرورت کے وقت افتاء بمذہب الغیر متقدمین ومتاخرین کی تصریحات سے ثابت ہے اصل مسئلہ افتاء بمذہب الغیر کا ۔۔۔۔۔تومتقدمین ومتاخرین کی تصریحات سے ثابت ہے چنانچہ استیجار علی تعلیم القرآن کے جواز پر متاخرین میں سے صاحب ہدایہ وقاضی خاں اور صاحب کنز وغیرہ سب محققین فتویٰ دیتے ہیں اور متقدمین میں سے امام فضلی اور فقیہ ابواللیث نے بھی فتویٰ دیا تھا اس سے صاف طورپر ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت مذہب غیر پر فتویٰ دینے کے جواز پر مشائخ کا اتفاق ہے ،اس کے بعد کسی خاص مسئلہ میں بالتخصیص فتویٰ منقول ہونے کی ضرو رت نہیں رہتی۔ مسئلہ افتاء بمذہب الغیر للضرورۃ کی اصل خودامام ابویوسفؒ سے بھی منقول ہے چنانچہ شامی نے رسم المفتی میں بحوالہ بزازیہ نقل کیا ہے انہ‘ صلی الجمعۃ مغتسلا من الحمام ثم اخبر بفارۃ مَیتۃ فی بیرِ الحمام فقال: نأخذبقول اخواننا من اہل المدینۃاذا بلغ الماء قلتین لم یحمل خبثاً الخ۔۱؎ضرورت کی وجہ سے دوسرے مذہب پر فتویٰ دینے کی اجازت ہرزمانہ میں ہے بوقت ضرورت دوسرے مذہب پر عمل جائز ہے اوراس ضرورت میں یہ قید نہیں کہ اس کا تحقق کب ہوا ہے ،بلکہ علی الاطلاق ضرورت کا لفظ استعمال کیا ہے جو عام ہے ہر ضرورت کو خواہ وہ کسی زمانہ میں پیداہوئی ہوجیسا کہ علامہ نے عقودرسم المفتی میں بھی ------------------------------ ۱؎ الحیلۃ الناجزۃ ،رفاق المجتہدین ،ص ۲۲۰