آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
علماء ومشائخ اور مفتیان کرام کا ادب واحترام ضروری ہے کیونکہ وہ نائب رسول اورنبی کے جانشین ہیں یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْلاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، ’’بین الیدین‘‘ کے اصل معنی دوہاتھوں کے درمیان کے ہیں ، مراد اس سے سامنے کی جہت ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تقدّم اور پیش قدمی نہ کرو، کس چیز میں پیش قدمی کو منع فرمایا ہے قرآن کریم نے اس کو ذکر نہیں کیا جس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ کسی قول یافعل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرو ،بلکہ انتظار کروکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جواب دیتے ہیں ، ہاں آپ ہی کسی کو جواب کے لئے مامور فرمادیں تو وہ جواب دے سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر آپ چل رہے ہیں تو کوئی آپ سے آگے نہ بڑھے ، کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے مگر یہ کہ آپ کی تصریح یا قرائن قویہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ خود ہی کسی کو آگے بھیجنا چاہتے ہیں جیسے سفر اور جنگ میں کچھ لوگوں کو آگے چلنے پر مامور کیاجاتا تھا ۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ علماء ومشائخِ دین کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چلتے ہو جو دنیا وآخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع وغروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہترو افضل ہو۔ (روح البیان ازکشف الاسرار) اس لئے علماء نے فرمایا کہ اپنے استاد اور مرشد کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے ۔