آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
عوام کے لیے ضروری دستور العمل ۱- سب سے پہلے کسی شخص کی حالت کو خوب جانچ لو، خوب امتحان کرلو، جب اس کے علم و عمل پر کافی اطمینان ہوجائے اب اس سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلو، اور فضول باتیں نہ پوچھو۔ ۲- اور یہ یاد رکھو کہ اچھی طرح جانچے ہوئے بغیر کسی کو اپنا بڑا نہ بناؤ کیونکہ دین بڑی قدر کے قابل چیز ہے اس لیے ہر کس و ناکس کو رہنما نہ بناؤ لیکن جب کسی کا محقق ہونا ثابت ہوجائے پھر اس سے حجت نہ کرو جوبتلادے اسی پر عمل کرو۔ ۳- اپنا دستور العمل یہ رکھئے، بقدر ضرورت احکام کا علم حاصل کیجئے جس کی صورت یہ ہے کہ جو دینی رسائل محققین کی تصنیف سے ہیں ان کو مطالعہ میں رکھئے اور دوران مطالعہ جہاں شبہ ہو وہاں نشان بناتے رہیں اور بعد میں ان مشتبہ مقامات کو کسی محقق سے زبانی حل کرلیں اور جو ان پڑھ ہیں وہ ان رسالوں کو سن لیا کریں ۔ ۴- ایک تو اس کا التزام کریں دوسری بات یہ کرو کہ جو کام کرنا ہو خواہ نوکری یا ملازمت یا تجارت یا شادی یا غمی سب کے متعلق پہلے کسی محقق سے شرعی حکم دریافت کرلو، اگر چہ عمل کی بھی توفیق نہ ہو دریافت کرلینے سے کم سے کم یہ فائدہ ہوگا کہ اس کے جائز ناجائز ہونے کا تو علم ہوجائے گا۔ ممکن ہے کہ یہ علم کسی وقت اس سے بچنے کی ہمت پیدا کردے اور اگر مبتلا ہی رہے تو حرام کو حلال سمجھ کر تو نہ کرو گے۔ ۱؎ ۵- جو ضرورت پیش آتی جائے کاملین سے اس کے متعلق استفتاء کرلیں ، اس وقت تو کلکتہ(کیاکسی بھی دوسرے شہراور ملک) تک سے ہر بات بذریعہ خط(یاآج کل موبائل ،انٹر نیٹ وغیر کے ذریعہ آسانی سے) دریافت ہوسکتی ہے۔ ------------------------------ ۱؎ التبلیغ اسباب الفتنہ ص۱۲۳۔