آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل(۱) مستفتیوں کے لئے چند ضروری ہدایات وآداب مسئلہ ہر مولوی یا عالم سے نہ پوچھنا چاہئے لوگ کیف ما اتفق کسی سے مسئلہ پوچھ لیتے ہیں بعض اوقات تو یہ بھی نہیں تحقیق کرتے کہ واقعی یہ شخص عالم بھی ہے یا نہیں کسی کا نام مولوی سن لیا اور اس سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ اور بعض اوقات عالم ہونا معلوم ہوتا ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کس مشرب کا ہے، کس عقیدہ کا ہے، ایسے شخص کے جواب سے بعض اوقات تو عقیدہ یا عمل میں خرابی ہوجاتی ہے اور بعض اوقات تردد و شبہ میں پڑ کر پریشان ہوتا ہے یا پریشان کرتا ہے۔۱؎عامی شخص کو مسائل کے دلائل اور علتیں نہ دریافت کرنا چاہئے ایک غلطی یہ ہے کہ مسائل کے دلائل دریافت کئے جاتے ہیں جن کے سمجھنے کے لئے علوم درسیہ کی حاجت ہے اور چونکہ سائل کو وہ حاصل نہیں اس لیے وہ دلیل کو سمجھتا نہیں اور اگر اسی خیال سے کوئی مجیب (جواب دینے والا) دلیل دینے سے انکار کرتا ہے تو اس مجیب غریب کوبدخلقی پر محمول کیا جاتا ہے۔۲؎غیر ضروری اسرار اور علل پوچھنے کی مذمت وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحُ الآیۃ(پ۱۵ بنی اسرائیل) ------------------------------ ۱؎ اصلاح انقلاب ص۳۱۔ ۲؎ اصلاح انقلاب ۱؍۳۱۔