آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم و ارباب فتاویٰ کی ذمہ داری فرمایا:میں نے یہ چاہا تھا کہ جو نئی صورتیں معاملات بیع و شراء و دیگر ذرائع معاش کی اس زمانے میں پیدا ہوگئی ہیں ان کے جواز و عدم جواز کے متعلق شرعی احکام مدون کردئیے جائیں اور اس مجموعہ کا نام بھی میں نے حوادث الفتاویٰ تجویز کردیا تھا، ان فتاویٰ کی تدوین کے لئے میں نے یہ صورت تجویز کی تھی کہ ہر قسم کے اہل معاملہ اپنے اپنے معاملات کی صورتیں لکھ لکھ کر میرے پاس بھیجیں مثلاً تاجر تجارت کی صورتیں ، اہل زراعت زراعت کی صورتیں ، ملازمین ملازمت کی صورتیں ،چنانچہ میں نے اپنے عام بیانات میں بھی اور خاص گفتگو کے موقع پر بھی اس کو ظاہر کیا اور وعدے بھی لیے۔ لیکن افسوس کہ کسی نے میری مدد نہ کی، پھر بھی میں نے بطور خود ہی نیز سوالات موصول ہونے پر لکھے جو حوادث الفتاویٰ کے نام سے شائع بھی ہوچکے ہیں لیکن وہ بہت چھوٹا سا مجموعہ ہے، جو ضروریات کے لیے کافی نہیں مگر اس کے مطالعہ سے کم از کم یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ معاملات کی جتنی نئی صورتیں ہیں ان سب کے احکام فقہاء کے کلام میں موجود ہیں کیونکہ وہ حضرات کلیات ایسے مقرر فرماگئے ہیں کہ انہیں سے نئی صورتوں کے احکام نکل سکتے ہیں ۔ اسی طرح متکلمین نے جو علم کلام مدون کیا ہے اس میں سب کچھ موجود ہے کیونکہ انہیں کے مقرر کردہ اصولوں پر سارے شبہات جدیدہ کا بھی جواب دیا جاسکتا ہے، اور اسی ذخیرہ سے کلام جدید کی بھی بآسانی تدوین ہوسکتی ہے، میں نے بطور خود ہی ان کے بعض شبہات کے جن کا مجھے علم تھا جوابات لکھ کر ’’ الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘ کے نام سے شائع کردیا، اور اس میں میں نے ایسے اصول موضوعہ قائم کردئیے ہیں جن سے میرے نزدیک اس قسم کے جتنے شبہات پیدا ہوں بہ