آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
نماز کو چھوڑنے والاکیا کافر ہوجائے گا؟ حضرات صحابہ فرماتے ہیں مَاکُنَّانَریٰ تَرْکَ شَئٍی کُفْراً سِوَی الصَّلوٰۃِ ۔کہ ہم کسی کام کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے بجز نماز کے کہ اس کا چھوڑنا اس وقت کفر سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ کہ نماز ایسی ہی چیز ہے کہ مسلمانوں کا قومی امتیاز ہے ، اس لئے اس زمانہ میں اس امتیاز کی ہر مسلمان حفاظت کرتا تھا،اور جو شخص نماز نہ پڑھتا اس کے اوپر کفرکاشبہ ہوتا تھا ۔ ترک صلوٰۃ عہد صحابہ میں کفر ہی کی علامت تھی پس اس کا حاصل کفر ہی ہوا،جیسے شدِّزُناَّر کو فقہاء نے شعار کفر فرمایا ہے،اس سے تمام احکام کفر کے جاری کردئیے جائیں گے، اور اس زمانہ میں ترک صلٰوۃ کی علامت کفر ہونے کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے ،بین العبد وبین الکفر الخ العہدالذی بیننا وبینہم الصلوٰۃ الخ(مشکوٰۃشریف کتاب الصلٰوۃ)۱؎ اور حضرات صحابہ نے جو فرمایا کہ ہم ترک صلوٰۃ کو کفر سمجھتے تھے ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ تارک صلوٰۃ (نماز کا چھوڑنے والا ) کافر ہوجاتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر کافر ہونے کا شبہ ہوتا تھا کیوں کہ اسلامی علامت کے فو ت ہونے سے صورت توکفر کی ہوگئی ۔۲؎ قرآن کی ایک آیت میں نماز ترک کرنے کوشرک میں داخل کیاگیا ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں : مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہ‘ وَاَقِیْمُوْاالصَّلوٰۃَ وَلاَ تَکُوْنُوْامِنِ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (ترجمہ) یعنی اللہ سے ڈرو، نماز قائم کرو، اور مشرکین میں سے مت بنو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز نہ پڑھنا مشرک بننا ہے اور حدیث میں تویہ مضمون بہت صاف آیا ہے مَنْ تَرَکَ الصَّلوٰۃَ مُتَعَمِّداً فَقَدْ کَفَرَ یعنی جس نے نماز کو قصداً ترک کردیا وہ کافر ہوگیا، گوجمہور علماء نے ان آیات واحادیث میں تاویل کی ہے ، مطلب یہ ہے کہ نماز چھوڑنا کافروں کا ساکام ہے۔ ------------------------------ ۱؎ بوادرالنوادر ص۲۶۴۰؎ الصبروالصلوٰۃ ص۲۲۷