آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
السلام کو بھی اس کا پتہ چلنا مشکل ہے ،پھر مولویوں کو کیسے پتہ چل جائے گا ، اور عوام توکسی شمار ہی میں نہیں ۔ اس لئے بات بات پر کسی پرکفر کا فتویٰ لگادینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟ یہ توحق تعالیٰ کی رحمت کو تنگ کردینا ہے۔۱؎انتظاماً للشریعہ کفرکا فتویٰ دینا ایک مرتبہ حضرت گنگوہی ؒ کے یہاں اہل باطل کی تکفیر کا ذکر تھا فرمایا: کیا کافر کافر لئے پھرتے ہو، قیامت میں دیکھوگے ایسوں کی مغفرت ہوگی جنہیں تم دنیا میں قطعی کافر کہتے ہو اور واقع میں وہ کافرنہ ہوں گے مگر نہایت ضعیف الایمان ہوں گے۔ پھر فرمایا: لیکن اگر ڈرانے دھمکانے کیلئے شرعی انتظام کے لئے کسی وقت کافر کہہ دیا جائے اس کا مضائقہ نہیں ، اس میں انتظامی شان کا ظہور ہوگیا۔۲؎لاَنـُکَفِّرُ اَہْلَ الْقِبْلَۃِ کی تشریح ننانوے وجوہ کفر پر ایک وجہِ ایمان کی ترجیح کا مطلب فقہاء کا جویہ حکم ہے کہ اگر کسی میں ننانوے وجوہ کفر کے اور ایک وجہ ایمان کی ہو توان ننانوے وجوہ کا اعتبار نہ کیاجائے گا اور اس ایک وجہ کااعتبار کیا جائے گا، اس کا مطلب لوگ غلط سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف ایمان کی ایک بات کا ہونا کافی ہے بقیہ ننانوے باتیں کفر کی ہوں تب بھی وہ مزیل ایمان نہ ہوں گی حالانکہ یہ غلط ہے۔ اگر کسی میں ایک بات بھی کفر کی ہوگی تو وہ بالاجماع کفر ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کسی کلام میں ننانوے محمل کفر کے ہوں اور صرف ایک محمل ایمان کا ہوتو اس پر ایمان ہی کا حکم لگایاجائے گا نہ کہ کفر کا کیونکہ ایمان کا کم ازکم ایک احتمال تو ہے۔ ------------------------------ ۱؎ الاسلام الحقیقی ملحقہ محاسن اسلام ص۴۵۹ ۲؎ الافاضات الیومیہ ص:۹۰ج۱