آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ضمیمہ آداب المستفتی( از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ) عوام الناس پر علماء و مفتیوں سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کرنا اور ان کی تقلید کرنا واجب ہے فَاسْئَلُوا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ۔(سورہ نحل) (اگر تم کو علم نہیں ہے تودوسرے اہل علم سے پوچھو) یہ اہم ضابطہ ہے جو عقلی بھی ہے نقلی بھی کہ جولوگ احکام نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اور نہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں ،اسی کا نام تقلید ہے ،یہ قرآن کا واضح حکم بھی ہے اور عقلاً بھی اس کے سوا عمل کو عام کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی ، امت میں عہد صحابہ سے لے کر آج تک بلااختلاف اسی ضابطہ پر عمل ہوتا آیا ہے ، جو تقلید کے منکر ہیں وہ بھی اس تقلید کا انکار نہیں کرتے کہ جو لوگ عالم نہیں وہ علماء سے فتوی لے کر عمل کریں ۔۱؎ (مسئلہ) تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس آیت(فَسْئَلُوا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ)سے معلوم ہوا کہ جاہل آدمی جس کو احکام ِشریعت معلوم نہ ہوں اس پر عالم کی تقلید واجب ہے کہ عالم سے دریافت کرکے اس کے مطابق عمل کرے۔۲؎ دلائل کی حاجت نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ ناواقف عوام کو علماء اگر قرآن وحدیث کے دلائل بتلابھی دیں تو وہ ان دلائل کو بھی انہی علماء کے اعتماد پرقبول کریں گے، ان میں خود دلائل کو ------------------------------ ۱؎ معارف القرآن ج۵ص۳۳۳سورہ نحل پ۱۴ ۲؎ معارف القرآن سورہ انبیاء پ۱۷ج ۶ص ۱۵۹