آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا جواب (بعد القاب وآداب ودیگر مضامین) مولوی …… سے جو مضمون ذکر کیا تھا وہ مطول تھا اس لیے بوجہ عدم انضباط کے ادا نہیں کرسکے، ملخص اس کا یہ ہے کہ یہ دیوار جس پر سائبان رکھا گیا ہے جزو مسجد ہے اور سائبان بھی بقصد مصلحتِ مسجد ڈالا گیا ہے، اور وہ مصلحت یہ ہے کہ اکثر ایام میں ظہر کی جماعت باہر کے درجہ میں ہوتی ہے تو صف اول پر تو سائبان قدیم کا سایہ ہوتا ہے لیکن دوسری صف جو بچوں کی ہوتی ہے، زیادہ بچے دھوپ میں ہوتے تھے گو بضرورت وہ اس دیوار کے سایہ میں کھڑے ہوتے تھے مگر وہ سایہ کافی نہ ہوتا تھا اب وہ اس سائبان کے سایہ میں آرام سے کھڑے ہوجاتے ہیں ، البتہ اس دیوار میں ایک پرانی غلطی اکابرکے وقت کی ہے کہ اس سہ دری کی کڑیاں اس پر رکھی ہیں سو اس غلطی کے تدارک کا بھی خیال ہے اس طرح سے کہ شرقی غربی دیوار پر ایک گاٹر رکھ کر کڑیوں کو اس پر ٹکادیا جائے، والسلام۔ (اشرف علی)حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب کا مکتوب گرامی مکرم و محترم دامت برکاتہم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، سائبان مسجد کے متعلق جناب نے دو مقدمے تحریر فرمائے، اول یہ کہ دیوار جس پر سائبان رکھا ہوا ہے جزو مسجد ہے، دوسرا مقدمہ یہ کہ سائبان بھی بقصد مسجد ڈالا گیا ہے، ان دونوں مقدموں میں زیادہ اہم پہلا مقدمہ ہے، یہ مقدمہ تا وقتیکہ دلیل سے ثابت نہ ہو، تصفیہ نہیں ہوسکتا، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خلاف اقوی ہے، کیونکہ یہ دیوار جس پر سائبان رکھا گیا ہے یہ جزو مجموعہ سہ دری ہے جو خارج ہے اور جزو خارج خارج، علاوہ اس کے اس کا جزو مسجد ہونا غیر معقول ہے،