آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل(۹) تصحیح الاغلاط و ترجیح الراجح کا سلسلہ اپنی غلطی واضح ہوجانے کے بعد اس سے رجوع کا اعلان (حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :) مجھ کو اپنے فہم یا تحقیق پر وثوق تو کبھی نہیں ہوا، مگر اس کے ساتھ ہی اپنے ساتھ اتنی بدگمانی بھی نہ تھی کہ از خود اپنی زلات (لغزشوں ) واغلاط کی تفتیش کا اہتمام کرتا، البتہ اگر کبھی اتفاقاً ہی کسی نے غلطی کی اطلاع دی تو بحمداﷲ فوراً رجوع کرلیا، اور کسی نہ کسی موقع پر اس کو شائع کردیا چنانچہ میری تحریرات سے یہ بات ظاہر ہے۔ خصوصاً امداد الفتاوی کے بعض حصص کے اخیر میں ایک طویل فہرست اس کی بھی ملحق ہے، پھر جب ان تنبیہات کی مقدار معتد بہ ہوگئی تو مصلحت معلوم ہوئی کہ اس کا ایک مستقل سلسلہ جاری رکھا جائے، چنانچہ ترجیح الراجح کی یہی حقیقت ہے۔ حضرت والا کی اعظم خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اپنی تصانیف کے تسامحات کو جن کا علم خود یا کسی دوسرے کے ذریعہ ہوتا رہتا ہے ان سے رجوع فرماتے رہتے ہیں اور اس رجوع کو شائع بھی فرماتے رہتے ہیں اور اس سلسلہ کا ایک خاص لقب ’’ترجیح الراجح‘‘ بھی تجویز کیا گیا ہے جو مستقل طور پر جاری ہے اس سلسلہ میں جہاں حضرت والا کو اپنے تسامح پر شرح صدر ہوجاتا ہے، وہاں رجوع فرمالیتے ہیں اور جہاں تردد رہتا ہے وہاں جواب لکھ کر یہ تحریر فرمادیتے ہیں کہ دیگر علماء سے بھی تحقیق کرلی جائے، اس سلسلہ کے متعلق ایک مولوی صاحب سے حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا یہ قول احقر نے سنا ہے کہ’’ ترجیح الراجح‘‘ اس زمانے میں بالکل ایک نرالی چیز ہے، یہ سلف صالحین کا معمول تھا مولانا تھانوی کی امتیازی شان اور کمال صدق و اخلاص کے ظاہر کرنے کے لیے بس یہی کافی ہے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اشرف السوانح ۳؍۱۳۳