آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
احتمالِ فتنہ کی صورت میں جواب سے گریز فرمایا: ایک شہر سے ایک خط آیا کہ یہاں فلاں لیڈر بہت آفت اٹھارہے ہیں ایک فوج بنائی ہے ایک جھنڈا نکالاجاتا ہے پرتلے لوگوں کے ڈالے جاتے ہیں کہیں ہار مونیم بجایا جاتا ہے ،لہٰذا اس کے متعلق فتویٰ دیاجائے ہم شائع کریں گے،جواب حسب ذیل دیاگیا۔ احکام سب ظاہر ہیں لہٰذا اس صورت میں تبلیغ واجب نہیں ،فتویٰ سے سوائے افتراق کے کچھ حاصل نہ ہوگا ،پھر فرمایا: اسی وجہ سے ہم سے سب ناراض ہیں ان لیڈرکا خط آتا اس کا بھی خشک جواب جاتا ان کے مخالف کا آیا اس کا بھی خشک جواب جارہا ہے فتوے سے مقصود محض آڑہوتی ہے، اب تو پارٹیاں بن گئی ہیں اور ہم کسی پارٹی میں نہیں ہم تو یوں کہتے ہیں خدا کی پارٹی بننا چاہئے، اُوْلٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلااِنَّ حِزْبُ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔۱؎اہم اور مفید سوال پر اظہار خوشی حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریاآبادی ؒ کے ایک سوال کے جواب میں نقس جواب کے تحریر فرمانے سے قبل حکیم الامت حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں : ماشاء اللہ نہایت ضروری سوال ہے ،جس کی طرف کبھی التفات نہیں ہوا ،جزاکم اللہ کہ آپ نے متوجہ کیا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ القول الجلیل ص۱۰ملفوظ نمبر ۷ ۲؎ حکیم الامت نقوش وتاثرات ص۵۱۵