آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
سوال از حکیم الامت حضرت تھانویؒ (۱) عُمّال بیت المال منصوب من السلطان ہیں اور سلطان کی ولایت عامہ ہے اس لیے وہ سب کا وکیل بن سکتا ہے اور مقیس میں ولایت عامہ نہیں ، اس لیے آخذین کا وکیل کیسے بنے گا، کیونکہ نہ توکیل صریح ہے نہ دلالۃً ہے اور مقیس علیہ میں دلالۃً ہے کہ سب وہ اس کے زیر اطاعت ہیں اور وہ واجب الاطاعت ہے۔ (۲) مقصود معتدہ مطلقہ کا پوچھنا ہے جس کا سکنیٰ زوج پر واجب ہے اس لیے جواب کا انتظار ہے۔ والسلامجواب از حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری (۱) بندہ کے خیال میں سلطان میں دو وصف ہیں ایک حکومت جس کا ثمرہ تنفیذ حدود و قصاص ، دوسرا انتظامِ حقوق عامہ، امر اول میں کوئی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ہے، امر ثانی میں اہل حل و عقد بوقت ضرورت قائم مقام ہوسکتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ اہل حل و عقد کی رائے و مشورہ کے ساتھ نصب سلطان وابستہ ہے جو باب انتظام سے ہے، لہٰذا مالی انتظام مدارس جو برضائے مُلاّک و طلبہ ابقاء دین کے لیے کیا گیا ہے بالاولی معتبر ہوگا اور ذرا غور فرمائیں انتظام جمعہ کے لیے عامہ کا نصب امام معتبر ہونا ہی جزئیات میں اس کی نظیر شاید ہوسکے۔ (۲) معتدہ طلاق کے لیے کوئی روایت نہیں ملی معذور ہوں ، مگر بحر الرائق میں ہے (واخذ ابو حنیفۃ بتفسیر ابن عمرؓ ذکرہ الاسبیجابی وذکر فی الجوہرۃ ان اصحابنا قالوا الصحیح تفسیرہا بالزنی کما فسرہ ابن مسعود) اور یہی قول ابن عباس اور اکثر کا لکھا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض استطالت لسان سے اخراج نہیں ہوگا، ہاں ابن عباس سے ایک روایت تفسیر