آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب اسی کو دینا چاہئے جس کا عمل کرنے کا قصد ہو ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضرت !کشمیر کے متعلق اکثر لوگوں کو مالی و جانی امداد کرنے میں اشکال ہے اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ چونکہ سائل کا مقصد خود عمل کا نہ تھا ویسے مشغلہ کے طور پر پوچھا۔ اس لیے فرمایا کہ جس شخص کا ارادہ امداد کرنے کا ہو اس کو خود سوال کرنا چاہئے اس کو جواب دیا جائے گا اگر آپ کا ہی ارادہ ہے تو ظاہر کریں کہ کون سی امداد کرنا چاہئے ہیں تاکہ اس کا حکم ظاہر کروں سوال اس شخص کو کرنا چاہئے جس کا کچھ کرنے کا ارادہ ہو، عرض کیا بعض لوگ دریافت کرنے لگتے ہیں ۔ فرمایا: جو میں کہہ رہا ہوں آپ سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ دوسروں کو جواب دینے کی آپ کو کیا فکر! کوئی پوچھے کہہ دیجئے ہم کو نہیں معلوم۔ ۱؎ جس زمانے میں کوے کے مسئلے کا شور و غل ہوا بہت لوگ میرے پاس مجھ سے پوچھنے آئے میں ان سے پوچھتا کہ کیا کھاؤ گے ؟ کہتے نہیں ! میں کہتا کہ تو نہ بتاؤں گا، نہ تم پر پوچھنا (فرض) نہ مجھ پر بتانا فرض اور عقیدہ کا مسئلہ نہیں ۔۲؎ میں کہتا ہوں جب ارادہ کھانے کا نہیں تو پوچھتے کیوں ہو کیونکہ یہ فروعی مسئلہ میں سے ہے اصول میں سے نہیں کہ قیامت میں پوچھ ہوکہ اس کی نسبت کیا اعتقاد رکھا تھا، میری غرض یہ تھی کہ عوام الناس کو علماء پر جرأت نہ ہو اور فضول میں مشغول نہ ہوں ۔۳؎معترض و معاند شحص کو جواب نہ دینا چاہئے فرمایا: معاند کو جواب دینا مفید نہیں بلکہ خاموشی بہتر ہے مگر مولویوں کو صبر کب آتا ہے جوش اٹھتا ہے بقول مولانا یعقوب صاحب آج کل کے مولوی فوجیوں سے کم ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۱؍۱۷-۱۸ ۲؎ الافاضات ۲؍۱۲۷۔ ۳؎ دعوات عبدیت ۱۴؍۸۱۔