آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مراسلت کی ابتداء عربی زبان سے ہوئی ہے اختصار کی وجہ سے ہم نے شروع کی مکاتبت کو حذف کردیا ہے اور صرف علمی وفقہی مکاتبت کے حصہ کو من وعن نقل کردیا ہے پوری مکاتبت اصل کتاب تذکرۃ الرشید صفحہ۱۱۵، پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کا مکتوب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام بحضور لامع النور مخدوم و مطاع نیاز مندان دامت فیوضہم و برکاتہم بعد تسلیم خادمانہ عرض ہے والا نامہ ۸؍ذی الحجہ کو شرف صدور لایا، معززو ممتاز فرمایا، قلب حزیں کو تسلی ہوئی، اب تک اس سوچ میں تھا کہ کیا عرض کروں جواب میں تاخیر ہوئی مگر چونکہ اظہار مرض میں شرم کرنے سے معالجہ بگڑتا ہے اس لیے کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوا۔ جن دو امروں کی نسبت حضور نے ارشاد فرمایا وہ بہت صحیح اور بجا ہے، فی الواقع مجھ کو ان میں ابتلاء ہوا، اب حضور کے الطاف و واخلاق کے وثوق پر دونوں امر کی نسبت بے تکلف اپنے خیالات ظاہر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ، امید ہے کہ اس میں غور فرماکر جو حکم میری حالت کے مناسب ہو صادر فرمایا جاوے، خدا کی قسم میں جو کچھ لکھتاہوں محض استشارۃً و استرشاداً لکھتا ہوں ، نعوذ باﷲ طالب علمانہ قیل و قال مقصود نہیں ، اور میں سچے دل سے پکا وعدہ کرتا ہوں کہ بعد حصولِ شفاء قلب جس طرح حکم ہوگا اس میں ہرگز حیلہ و عذر نہ ہوگا، امید ہے کہ میری بے تکلفی کو معاف فرمایا جاوے کیونکہ بدون اظہار اپنے جمیع مافی الضمیر کے جواب شافی نہیں ہوتا ۔