آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
قربانی سے متعلق دو مسئلوں میں رجوع ایک نفلی قربانی متعدد لوگوں کی طرف سے کی جاسکتی ہے سوال (۶۴۵) اگر فوت شدہ عزیزوں یا اہل بیت یا خاص رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کی جائے تو اس کا کیا طریقہ ہے ، آیا مثل دیگر شرکاء ہر ایک شخص کی طرف سے ایک ایک حصہ ہونا چاہئے یا ایک حصہ ہی میں چند کو شریک کردے؟ الجواب : ایک ہی میں سب کو ثواب بخش سکتے ہیں ۔ میں نے گذشتہ سال زبانی فتویٰ دیا تھا کہ جس طرح اپنی طرف سے قربانی کرنے میں ایک حصہ دو شخص کی طرف سے جائز نہیں ، اسی طرح غیر کی طرف سے تبرّعاً نفل قربانی کرنے میں خواہ زندہ کی طرف سے یا میت کی طرف سے ایک حصہ دو شخص کی طرف سے جائز نہیں ، مگر روایات سے اس کے خلاف ثابت ہوا اس لئے میں اس سے رجوع کرکے اب فتویٰ دیتا ہوں کہ جو قربانی دوسرے کی طرف سے تبرعاً کی جائے ، تبرّع کی قید سے وہ صورت نکل گئی کہ میت نے اپنے مال سے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو اس صورت میں ایک حصہ ایک ہی کی طرف سے جائز ہے (اور تبرّعاً یعنی بغیر وصیت کے ازخود اپنی طرف سے زندہ یا میت کو ثواب پہچانے کے لئے جو قربانی کی جاتی ہے ) چونکہ وہ ملک ذابح (قربانی کرنے واے کی ملک) ہوتی ہے اور صرف اس سے دوسرے کو ثواب پہنچتا ہے اس لئے ایک حصہ کئی کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ مسلم میں ہے کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرکے متعدد کو ثواب پہچانا جائز ہے بس یہ بھی ویسا ہی ہے ۔ والروایات ھذہ ۔۔۔۔ الخ ۔ قال فی البدائع لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت بدلیل انہ‘