آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
نے ان سے دریافت فرمایا ،انہوں نے کہا کہ مجھے بھی معلوم نہیں ، رب العالمین سے دریافت کرکے بتلاؤں گا ،پس وہ دریافت کرنے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا کہ اس مرتبہ مجھ کو حق تعالیٰ سے اتنا قرب ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ، کل ستر ہزار پردے درمیان میں رہ گئے تھے ،اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ خیرالبقاع مساجد ہیں ۔ دیکھئے باوجود اس علم وفضل کے یہ فرمادیا کہ مجھے نہیں معلوم ،سو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ جو بات معلوم نہیں ہوتی بے تکلف فرمادیتے کہ مجھے نہیں معلوم اور آپ نے صرف اسی واقعہ میں ایسا نہیں کیا بلکہ اور بہت سے امور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ہے، خودخداتعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرماتے ہیں وَمَااَنَامِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ کہ آپ فرمادیجئے کہ میری یہ عادت نہیں کہ جو بات مجھ کو معلوم نہ ہو اس میں تکلف کروں ۔ پس عالم کی یہ شان ہونی چاہئے کہ جو بات معلوم نہ ہوبے تکلف کہہ دے کہ مجھے معلوم نہیں ،اب عوام کی توکیا شکایت علماء بھی جہل کو چھپاتے ہیں ۔ کانپور میں کسی نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ سُورکا چمڑہ پاک ہے یاناپاک؟ مسئلہ معلوم نہ تھا اس لئے ٹالنے کے لئے کہا کہ اس مسئلہ کی تمہیں کیاضرورت ہے ؟اس نے کہا کہ آخرمسئلوں کی مسلمان ہی کوتوضرورت ہوتی ہے، آپ نے جواب دیا کہ یہ بہت دور کا مسئلہ ہے تم کیا سمجھو گے، اس نے کہا کہ آخر آپ بتائیے تو سہی ،تب آپ نے کہا کہ قواعد سے توپاک معلوم ہوتا ہے ،غرضیکہ اتنے حیلے حوالے کئے اور پھر مسئلہ غلط بتایا ، مگر یہ نہیں کہا گیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ اور بعضے غلط مسئلہ بتلانے کی جرأت نہیں کرتے مگر سائل کوبے وقوف بناکر اپنی جان بچاتے ہیں ،چنانچہ ایک گلہری کنویں میں گرگئی تھی ایک شخص اس مسئلہ کے دریافت کرنے کے لئے ایک مولوی صاحب کے پاس گیا جو کہ بڑے معقولی تھے، انہیں خود بھی