آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب: ایسے مضمون کے جواب کے لیے کارڈ کافی نہیں ، پھر اسی سلسلہ میں فرمایا کہ کسی امام کے متعلق سوال معلوم ہوتا ہے اماموں کے پیچھے لوگ ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں اگر لفافہ بھیجیں گے تب کان کھولوں گا۔۱؎بعض سوالوں کے جوابات لفافے ہی میں دئیے جاتے ہیں کارڈ پر ایسے سوالات کے جوابات (جس کا تذکرہ ما قبل میں ہوا) میں نہیں دیتا ہوں اس لیے کہ اس میں میرا تو مضمون ہوگا ان کا نہیں ہوگا اس کی تعیین ان کی زبان پر ہوگی، اور لفافے میں میرا ان کا دونوں کا مضمون ہوگا، کسی کو دکھلائیں گے تو وہ سمجھ لے گا کہ ایسے سوال پر جواب ہے، لوگ بڑی بڑی ترکیبوں اور چالاکیوں سے کام لیتے ہیں ، اور اصل تو یہ ہے کہ اوروں کی فکر میں کیوں پڑے آدمی اپنا ایمان سنبھالے۔ ۲؎اصلاح کی خاطر جواب نہ دینا ایک شخص بلا کر ایہ ریل پر سفر کرکے آیا تھا فرمایا کہ تم پہلے جاکر کرایہ داخل کرو کیونکہ بلا کرایہ چوری سے سواری کرنا حرام ہے اس کے بعد جب اور کچھ دریافت کرو گے تو بتلایا جائے گا۔ ۳؎مخاطب کی رعایت میں مضمون میں نرمی اختیار کرنا فرمایا کہ نواب ڈھاکہ کو محفل میلاد کا بڑا شوق تھا خود مجالس منعقد کرتے تھے اور خود ہی پڑھاکرتے تھے انہوں نے جب مجھ سے مسئلہ پوچھا تو میں نے عنوان میں اس قدر رعایت کی کہ بدعت تک نہ لکھا، بلکہ یہ لکھا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے وہ سمجھ دار آدمی تھے فوراً چھوڑ دیا۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص:۱۰۴۔ ۲؎ الافاضات ۱؍۶۷۔۳؎ کلمۃ الحق ص۱۰۴۔۴؎مجالس حکیم الامت ص۲۶۳۔