آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ترجیح الراجح کی ایک مثال استخارہ کا ثمرہ رجحانِ قلب استخارہ کایہ ثمرہ کہ’’ جس طرف قلب متوجہ ہو اس کو اختیار کرے‘‘یہ مشہور قول ہے، اور نووی وغیرہ اسی طرف گئے ہیں کما نقلہ الحافظ فی فتح الباری کتاب الدعوات باب الدعاء عندالاستخارہ قولہ ثم رضی بہ مانصہ ’’ویفعل بعدالاستخارہ مانیشرح بہٖ صدرہ‘ ۔ مگر دلائل سے یہ راحج ثابت ہوا کہ اس انشراح کے انتظار کی ضرورت نہیں بلکہ جومناسب سمجھے کرلے ، یہ قول عزالدین بن عبدالسلام کا ہے ،ا ور اس کی ترجیح کے دلائل میرے ایک ملفوظ میں ہیں جو القول الجلیل حصہ دوم میں ضبط کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو بوادرالنوادر ص۴۶۴) اس تحقیق مذکورکے ایک مدت کے بعد ایک فاضل دوست نے جامع صغیر سیوطیؒ کی ایک حدیث دکھلائی جس کے ظاہر الفاظ سے متبادر ہوتا ہے کہ استخارہ کے بعد میلان قلب(یعنی دلی رجحان) کا انتظار کیا جائے وہ حدیث یہ ہے : فی شرح الجامع الصغیر اذا ہممت بامر فاستخرربک فیہ سبعمرات ثم انظر الی الذی یسبق الی قلبک فان الخیرۃ فیہ ،ابن السنی فی عمل یوم ولیلۃ (فر) عن انس)ض) قال النووی وفیہ ان یفعل یعدالااستخارہ مانیشرح لہ‘ صدرہ‘ لکنہ‘ لایفعل ماینشرح لہ‘ صدرہ‘ ماکان لہ فیہ ہوقبل الاستخارہ ۔۱؎ ------------------------------ ۱ فیض القدیر ص۵۷۶ج۱