آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم و ارباب افتاء کوتواضع کے ساتھ اپنی خاص شان اور استغناء سے رہنا چاہئے فرمایا: جامعہ ملیہ سے ایک صاحب کا خط آیا ہے پہلے بھی ان کا خط آیا تھا جس میں اپنے لئے تدبیر اصلاح دریافت کی تھی کہ جس سے اصلاح ہوجائے تو حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا تھا کہ: اگر اس تدبیر کے اندر آپ کامیابی کا وعدہ نہ سمجھیں ، تو میں تدبیر بتلاسکتاہوں ، اس کی وجہ یہ فرمائی کہ کہیں بدپرہیزی توکریں خوداورالزام آئے میرے اوپر ،اور مجھ کو کیا معلوم جو بتلایاجائے اس پر عمل کریں بھی یا نہیں ، وہاں سے جواب آیا کہ آپ کامیابی کے ذمہ دار نہیں ، اس پر فرمایایا کہ اب میں ان کو وہ تدبیر بتلادوں گا ۔ پھر فرمایا کہ مدعیوں کے ساتھ آن بان اور استغناء سے رہنا چاہئے ،باقی انبیاء علیہ السلام پر اپنے کو قیاس نہیں کرنا چاہئے ،انبیاء علیہم السلام پرتوتبلیغ واجب تھی ہم پر اکثر مواقع میں تبلیغ واجب نہیں مستحب ہے اور واجب کوکسی حالت میں ترک نہیں کیا جاتا، البتہ جہاں تبلیغ نہ ہوئی ہو وہاں وہی طرز اختیار کرنا چاہئے جو حضرات انبیاء علیہم السلام کا تھا کہ ہمت ہوتو اگر قتل بھی ہوجائے تب بھی پروانہ کرے کیونکہ وہاں تبلیغ واجب ہے اور جہاں تبلیغ ہوگئی ہواس جگہ تبلیغ مستحب ہے وہا ں مفاسدکو گوارانہیں کیا جاسکتا اور ان مفاسد کا حاصل یہی ہے کہ دین واہل دین کی ذلت، پس ایسے موقع پر اگر کوئی ذرابے اعتنائی کرے فوراً چلاآنا چاہئے اب لوگ ان مراتب میں فرق ہی نہیں کرتے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ القول الجلیل ص۴ملفوظ نمبر۲